پاکستان

انتخابی نشان کا معاملہ: پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن کے ’متضاد رویوں‘ پر ماہرین کی تنقید

پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن نے بہت سے دیگر معاملات میں نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے، سربراہ پلڈاٹ

سیاسی اعتبار سے مشکلات کا شکار پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے، تاہم ماہرین نے الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی، دونوں کو ان کے متضاد رویوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعے کو پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو دوسری بار کالعدم قرار دے دیا تھا اور اعلان کیا کہ پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل ہے۔

فی الوقت پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ جماعت ضرور ہے لیکن الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر پارٹی کے صدر/چیئرمین کے حصے میں کوئی نام درج نہیں ہے، ماضی میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا مسلم لیگ (ن) کو بھی کرنا پڑا تھا اور اس کے تمام امیدواروں کو آزاد حیثیت سے سینیٹ کا الیکشن لڑنا پڑا تھا۔

پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تضاد سے بھرپور قرار دیا، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مصدقہ کاپی منگل (26 دسمبر) کو ملنےکا امکان ہے اور وہ اسی روز اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے تھا، اس کے ساتھ ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے بہت سے دیگر معاملات میں نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے پی ٹی آئی نے مفصل طریقہ کار وضع کر رکھا ہے جس پر 2012 میں عمل بھی کیا گیا تھا، تاہم وہ شاندار جمہوری عمل دوبارہ نہیں دیکھا گیا، ممکنہ طور پر پی ٹی آئی نے بھی دوسری جماعتوں کی روایت دہرانے کی کوشش کی، مگر اس میں فرق ہے کیونکہ دوسری جماعتوں کے منشور میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی اتنی تفصیل موجود نہیں ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات 2021 میں ہونے والے تھے لیکن کورونا وبا کے سبب لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ جون 2022 میں منعقد ہوئے، پی ٹی آئی اس وقت بھی محتاط نہیں تھی اور ان کے منشور میں درج طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا تھا، بعدازاں جب الیکشن کمیشن نے اسے 20 روز کے اندر انتخابات کرانے کی ہدایت کی تو پی ٹی آئی کو کم از کم اپنے منشور پر عمل کرنے کی حد تک زیادہ محتاط رہنا چاہیے تھا۔

سربراہ پلڈاٹ نے الیکشن کمیشن کے ناقص رویے کی بھی نشاندہی کی، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن تمام فریقین کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کر رہا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت کارروائی کرنی چاہیے تھی جب سینیٹر سرفراز بگٹی کو نگران کابینہ میں شامل کیا گیا تھا کیونکہ وہ سینیٹ میں باپ پارٹی کی جانب سے رکن تھے، وہ اتنی اہم وزارت سنبھالے ہوئے تھے اور انتخابات نزدیک آتے ہی وہ دوسری پارٹی میں شامل ہو گئے، اِس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

الیکشن کمیشن کا ناقص رویہ؟

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن دیگر جماعتوں کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر رہا ہے، سینیٹ کی ویب سائٹ نے سیریل نمبر 67 پر پروفیسر ساجد میر کا نام درج کیا ہے، جس میں ان کی مسلم لیگ (ن) سے پارٹی وابستگی ظاہر کی گئی ہے، ساتھ ہی ان کا نام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے صدر کے طور پر بھی درج ہے۔

اس حوالے سے استفسار پر مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پروفیسر ساجد میر کا مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی اتحاد ہے۔

اسی طرح کالعدم اہل سنت والجماعت ’پاکستان راہ حق پارٹی‘ کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور اہل سنت والجماعت کے رہنما علامہ احمد لدھیانوی راہ حق پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی 13 جنوری تک کا وقت ہے، 13 جنوری کو امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دی جائے گی۔

واضح رہے کہ اگر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنا پڑا تو پی ٹی آئی کے لیے ایک اور بڑا دھچکا خواتین اور غیرمسلموں کے لیے مخصوص نشستوں کا نقصان ہوگا کیونکہ یہ مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو دی جاتی ہیں۔

پنجاب، سندھ کے میدانی علاقوں میں دھند، موٹروے مختلف مقامات سے ٹریفک کیلئے بند

دو ’رحم مادر‘ رکھنے والی خاتون کے ہاں الگ الگ دنوں پر دو بچوں کی پیدائش

’غزہ میں اسرائیلی بمباری سے اب تک 100 صحافی شہید‘