نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (ساتویں قسط)

اگر آپ منگھو پیر کی پہاڑیوں پر کھڑے ہیں تو آپ کو جنوب مشرق کی طرف ملیر میں نیل بازار کے قریب ایک قدیم بستی دکھائی دے گی جسے ’الھڈنو‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔

یہ کتنی دکھ دینے والی بات ہے کہ آج سے 30، 40 برس پہلے آرکیالوجی کے ماہرین سے کراچی کے قدیم مقامات کی کھدائیاں کروائی تھیں جن پر بہت وقت اور رقم لگی لیکن ان میں سے کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں ہے جسے آج ہم جا کر دیکھ سکیں۔ دو برس پہلے جب میں اس تحریری سلسلے کی تیاری کررہا تھا اور کراچی کے قدیم مقامات کی خاک چھان رہا تھا تب میں جہاں جہاں بھی گیا وہاں اگر مجھے کچھ ملا بھی تو وہ پریشانی اور دکھ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ کسی بھی حوالے سے اچھی کیفیت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک انتہائی منفی رویہ ہے۔ ہم شاید تہذیب یافتہ زمانوں اور قوموں سے کچھ بھی نہیں سیکھ رہے ہیں۔

وادی سندھ کی تاریخ اور تہذیب پر دنیا کے مانے ہوئے محققین نے جو کتابیں تحریر کی ہیں، آپ اگر ان کتابوں اور ان میں بنے ہوئے نقشوں کو دیکھیں تو وہاں وادی سندھ کے قدیم زمانے (وادی سندھ کے عروج والے زمانے سے پہلے) یا وادی سندھ کے عروج والے زمانے (2500 سے 1500 قبلِ مسیح) تک یا کچھ صدیوں بعد تک بھی اس سمندری کنارے پر آپ کو دو اہم مقامات نظر آئیں گے۔ اب ہمارے سفر میں وہ زمانے آرہے ہیں جنہیں دنیاIndus Valley Civilization ( اس تحریر میں ہم اس کے لیے ’سندھو گھاٹی تہذیب‘ کے الفاظ استعمال کریں گے) کے نام سے جانتی ہے۔ چلیے چل پڑتے ہیں سندھو گھاٹی کے سحرانگیز اور شاندار زمانے میں۔

اگر آپ منگھو پیر کی پہاڑیوں پر کھڑے ہیں تو آپ کو جنوب مشرق کی طرف ملیر میں نیل بازار کے قریب ایک قدیم بستی دکھائی دے گی جسے ’الھڈنو‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور دوسری بستی آپ کو کراچی سے مغرب میں وندر نئے کے قریب موجودہ سونمیانی سمندری کنارے سے شمال کی طرف نظر آئے گی جسے ’کوٹ بالا‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان دونوں بستیوں کی کھدائی اس حوالے سے ہوئی تھی کہ دیکھا جاسکے کہ ان دنوں کے سمندری کنارے کی بستیاں کیسی تھیں۔ ان دونوں بستیوں کی کھدائی آج سے تقریباً 45 برس پہلے ہوئی تھی۔ ان کھدائیوں کے نتیجے میں جو تحقیقاتی رپورٹس آرکیالوجی کے محققین نے تیار کیں وہ انتہائی حیرت انگیز ہیں۔

یہ دونوں بستیاں ان تینوں زمانوں کی بستیاں ہیں جنہیں ہم تحقیقی حوالے سے ان ناموں سے جانتے ہیں۔

1۔ Early Indus: موہن جو دڑو سے پہلے کا تاریخی زمانے جیسے کوٹڈیجی اور آمری۔

2۔ Mature Indus Culture: سندھو تہذیب کے عروج کا زمانہ۔

3۔ Post Indus: زوال پذیر سندھو گھاٹی۔

چونکہ ہم تاریخ سے پہلے کے زمانے میں سفر کرتے آئے ہیں اس لیے ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک تہذیب کو بننے کے لیے وقت کی کیسی کیسی مشکل ترین گھاٹیوں اور ریگستانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بالکل اس بچے کی طرح جو انتہائی سُست رفتاری سے اپنی بالیدگی کا سفر قدم بہ قدم سیکھتا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ زندگی کے ان مشکل اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں پر سے چل کر یہ تہذیب جوان ہوئی ایک ایسی تہذیبی سلطنت جس کا دائرہ لاکھوں چورس میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ یہ کمال اور حیرت کی ایک کائنات تھی جس میں وہ ساری خوبیاں پنپ کر جوان ہوئیں جنہیں پوری دنیا حیرت سے دیکھتی ہے۔ اگر ہمارے مغرب اور جنوب مغرب میں عظیم تہذیبیں پنپ کر جوان ہوئیں تو ہمالیہ سے بہنے والے سندھو نے بھی اپنی جھولی میں ایک شان دار تہذیب کو پال کر جوان کیا۔ یہ کتنا زبردست ہے کہ اس سلطنت کی ابتدائی تار پود ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئی ہے۔

اس تہذیب کے ارتقا، وسعت، زبان اور ہنرمندی پر بہت سی کتابوں کے مصنف ایس-آر-راؤ لکھتے ہیں کہ ہزاروں بستیوں پر پھیلی سندھو سلطنت ترقی کے کمال تک پہنچی۔ اس نے دنیا سے رابطے کا جو تصور تخلیق کیا وہ کمال تھا۔ اس وسیع سلطنت کی تار پود چھوٹی چھوٹی بستیوں نے کی تھی جن کی آج کل ہم کھدائی کررہے ہیں اور ان بستیوں کا کمالِ ذہانت اور فن دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ان چھوٹی چھوٹی بستیوں میں پنپنے والی تہذیب تھی جس نے وہاں سے ترقی کرتے کرتے بڑے بڑے شہروں کو جنم دیا اور جنوبی مشرق کو ایک وسیع سلطنت بنایا۔

اتنے مقامات اور شہروں کے آثار ملنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلطنت بیوپار کے بنیادوں پر کھڑی تھی جس میں بیوپار اور تجارت کا سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ تیار کیے ہوئے مال میں معیار تھا اور نقل و حمل کے ذرائع زبردست تھے اس کے علاوہ صنعتی اور زرعی پیداوار انتہائی شاندار تھی۔ ویلر کے مطابق 2500 سے 1500 قبل مسیح سندھو تہذیب کی ترقی کے اوج والا زمانہ تھا جسے Mature Indus Period کہا جاتا ہے۔

ایک سلطنت کا درجہ دینے سے یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسے مرکزی طاقتور سیاسی بااختیار ادارے کی موجودگی جو شہروں کی تعمیر میں منصوبہ بندی سے کام لے وہ جن جن ممالک یا شہروں سے بیوپار کررہا ہے، اُس بیوپار کے لیے بننے والی مصنوعات پر کوالٹی کنٹرول رکھے اور اُس سلطنت میں ناپ تول کا مضبوط نظام موجود ہو اور وہ یہاں تھا۔ اس سلطنت کو محققین چار وسیع ترین صوبوں میں دیکھتے ہیں۔

1۔ مرکزی صوبہ: جس میں سندھو، سرسوتی، ستلج اور راوی کے بہاؤ بہتے تھے۔ یہ صوبہ مکران کے سمندری کنارے کے بالا کوٹ سے ہڑپہ تک تھا۔

2۔ مشرقی صوبہ: اس میں ھاکڑو (سرسوتی)، ٹنگ (دریشدوتی) اور جمنا کے مغربی طرف کا علاقہ شامل تھا۔

3۔ مغربی صوبہ: جس میں بلوچستان کے پہاڑی علاقوں مکران، افغانستان اور ایران کے بیچ والا علاقہ شامل تھا۔

4۔ جنوبی صوبہ: اس میں کَچھ، کاٹھیاواڑ اور جنوبی گجرات کِم (Kim) دریا تک والا علاقہ شامل تھا۔

انڈس ایمپائر پانچ صدیوں تک 15 لاکھ مربع کلومیٹرز کی وسیع اراضی میں پھیلی وہ سلطنت تھی جس نے تجارتی اشیا کی تیاری اور معیار کو بلند رکھا اور ساتھ میں ثقافتی، سیاسی اور سماجی طور پر ایک مضبوط سلطنت کے اعزاز کو اپنے سر کا تاج بنایا۔

سندھو سلطنت کے مرکزی صوبے کے سمندری کناروں (کراچی) کی قدیم بستیوں سے ہمیں گندم کی دو اقسام Triticum compactum اور Triticum sphaerococcum ملی ہیں جنہیں Indian Dwarf Wheat بھی کہا جاتا ہے جو یہاں کی مقامی گندم کی جھاڑ ہے۔ گندم کی کھیتی کے متعلق ہمیں افغانستان کی طرف منڈیگک اور مغرب میں ایران کی طرف گندم کی قدیم کاشت نظر آتی ہے۔ ایس-آر-راؤ لکھتے ہیں کہ 4000 قبل مسیح والے زمانے میں یہاں سے گندم، جَو اور کپاس کے بیج ملے ہیں جبکہ انتہائی جنوبی سندھ میں چاول اُگائے جاتے تھے۔

ایم-ایچ-پنوھر صاحب کے مطابق ’3001 قبلِ مسیح میں نئے پتھر کا زمانہ آیا تو یہاں کی زندگی گاؤں کی زندگی کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی جس کی وجہ سے اناج کا بونا، مویشیوں کو پالنا، معاشی زندگی کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ موہن جو دڑو کے زمانے میں گندم، جَو اور باجرے کی کھیتی عام ہوتی تھی اور بھیڑ، بکری، سوئر اور گدھے جیسے جانور گھروں میں پالے جاتے تھے۔ لوگوں نے بستیاں بسائیں اور بڑے شہر آباد ہوئے اور آگے چل کر زیادہ بارشوں اور پانیوں سے تحفظ کے لیے شہروں اور بستیوں کو کوٹ دینے کا رواج بھی پڑا اور اونچے ٹیلے بنا کر ان پر گھر، گاؤں یا بڑی آبادی بسانے کے رواج کا بھی آغاز ہوا۔

جب بھی شہری ثقافت اور شہروں کی منصوبہ بندی اور تحفظ کے لیے شہر کے گرد قلعہ یا کوٹ کی تعمیر پر بحث ہوتی ہے تو ہمیشہ مثال کے طور پر جیریکو (Jericho) کی بستی پیش کی جاتی ہے جس کا تعلق 7000 قبل مسیح سے ہے۔ یہ ان زمانوں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں تعمیر کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ ایسی ہی سُمیر تہذیب کی ایک بستی جو فرات کے کنارے آباد تھی جسے ’حبیبہ کبیر‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس کا تعلق 3500 قبل مسیح سے ہے۔

آرکیالوجی کے ماہرین کے مطابق یہ بستی قلع بند تھی مگر نہ شہر میں کوئی منصوبہ بندی اور نہ ہی گھروں کی تعمیر میں کوئی ترتیب نظر آتی ہے۔ البتہ اس بستی کی مختصر سی اراضی میں گندہ پانی نکالنے کی نالیاں ملی ہیں۔ مگر کراچی کی الھڈنو کی پوری بستی میں گندے پانی کے نکاس کے لیے نالیاں ملی ہیں جن کی قدامت سے متعلق آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا مؤقف ہے کہ یہ بستی مسلسل بستی اور اُجڑتی رہی ہے۔ مطلب تینوں زمانے یعنی سندھو تہذیب کے پروان چڑھنے سے پہلے (Early Indus) والے زمانے، سندھو تہذیب کے کمال کے زمانے (Mature Indus Culture) اور ممکن ہے کہ موہن جو دڑو پر موسمی تغیرات کے حوالے سے آئے ہوئے زوال کے بعد بھی (Post Indus) یہ بستی آباد رہی۔ اس بستی کے قائم رہنے کی بڑی وجہ پہاڑی علاقہ اور سمندری کنارہ ہی ہے۔

ہم بستی الھڈنو کو دیکھنے اور جانچنے کے لیے یہاں جلد آئیں گے۔ اس سے پہلے ہم اس بستی سے مغرب میں کچھ فاصلے پر سونمیانی کنارے پر بسی اُس بستی میں چلتے ہیں جس کا ذکر ہم اس تحریر کی ابتدا میں کرچکے ہیں۔ جنہیں ’بالا کوٹ‘ اور ’کوٹ بالا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بستی سمندری کنارے کی وجہ سے وجود میں آئیں، اس لیے بستی کی روزی روٹی سمندر کی دین سے وابستہ تھی۔ بلکہ کچھ محققین نے ایک بندرگاہ سمجھ کر اس جگہ کی کھدائی کروائی تھی۔ دُور کی بستیوں سے بیوپار ہوتا تھا جیسے جنوب مشرق میں سوراشٹر کی طرف اور ممکن ہے شمال کی طرف مرکزی صوبے کے دیگر شہروں، بستیوں اور قریبی بستی الھڈنو سے بھی لین دین کا رشتہ رہا۔

ہم ذکر کررہے تھے شہروں اور بستیوں کو تحفظ دینے کے لیے بستیوں کے گرد دیواروں کا جو پانی سے تحفظ کے لیے دی جاتی تھیں۔ تمام بستیاں شیر دریا کے کنارے آباد تھیں کیونکہ دریا کے بہاؤ کے بغیر زندگی پنپ نہیں سکتی اور نہ ہی پنپ کر جوان ہوسکتی ہے۔ شیر دریا نے اپنے شیریں پانی سے یہاں کی زندگی کو سانسیں تو دیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا بہاؤ گلیشیئرز کے پگھلنے کے موسم میں ایک بدمست ہاتھی کی طرح ہوجاتا اور یہی وہ موسم ہوتا کہ بے تحاشا بارشیں بھی ہوتیں۔ تو ایسے میں جو ساون کی جھڑی لگتی تو سب جل تھل ہوجاتا اور بہاؤ بہت سی بستیاں اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا۔ بلکہ دریائے سندھ کی یہی کیفیت تو ہمیں 1843ء میں لندن سے شائع ہونے والی Thomas Postans کی کتاب میں بھی نظر آتی ہے کہ دریا کے کنارے جو بستیاں آباد ہوتی تھیں وہ دو تین برس کے بعد موسمی تغیرات کی وجہ سے دریا انہیں بہا لے جاتا حتیٰ کہ تالپور حکمرانوں کے دور میں بھی ان کے ایک دو تخت گاہ والے شہر بھی دریا کا پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔

مگر اس سمندری کنارے پر حالات دریائی کناروں سے بہت مختلف ہوتے تھے۔ ایس-آر-راؤ صاحب لکھتے ہیں کہ دریائی بہاؤ سے ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا مگر سمندری کناروں کو کوئی براہِ راست خطرہ نہیں تھا۔ ان دنوں میں جب سمندر میں پانی بڑھنے اور اس میں ہواؤں کی وجہ سے اُتھل پُتھل زیادہ ہوجاتی تھی تو سندھو گھاٹی کے سمندری کناروں جیسے مکران، سندھ اور کچھ سوراشٹر کے کنارے بسنے والے لوگ ان موسموں کی اُلٹ پھیر کو محسوس کر لیتے تھے۔

یہ ہر سال ہوتا تھا اور ایسے موسم میں سمندر میں جاکر شکار کرنا ناممکن تھا تو ایسے موسم میں سمندری کنارے بسے ہوئے ماہی گیر سنکھ کا شکار کرتے تھے۔ جو زیورات بنانے کی صنعت کو خام مال فراہم کرتا تھا، اس صنعت سے ملک کے محصولات میں اچھا اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس قسم کے خام مال سے دیگر چیزیں بھی بنائی جاتی تھیں جیسے چھوٹے سے اوزار، راند کھیلنے کے لیے گوٹیاں، ناپ کے لیے چھوٹے فٹ اسکیل، سمت معلوم کرنے کے لیے کمپس اور دیگر چیزیں بناتے تھے جو کھدائی کرتے وقت ہاتھ لگی ہیں۔

اس کے علاوہ موتیوں (Genu stones) اور عاج سے بنی دوسری آرائشی چیزیں میسوپوٹیمیا (Mesopotamia)کے اُر(Ur)، کش(Kish)، براک (Brak) اور ایلم (Elam) کے سوس (Suse) شہر کو بھیجی جاتی تھیں اور یہ چیزیں یہاں کی کشتیوں پر اُن ممالک تک پہنچائی جاتی تھیں اور چیزوں کے بدلے میں تانبہ، دیگر دھاتوں، ادویات، خوشبوئیں اور اس طرح کی بہت سی دیگر چیزیں لےکر واپس لوٹتے۔ خام مال کے لیے یہ اپنے صوبوں میں لین دین کرتے تھے۔ بیوپاری ہنرمندوں کو کام کے بدلے وافر مقدار میں کھانے کی چیزیں دیتے تھے۔ کچھ کاریگر دھات کو پگھلا کر ان سے کچھ چیزیں بناتے تھے۔ کچھ ہنرمند چھوٹے بڑے موتیوں (Beads) سے آرائشی ہار وغیرہ بنانے میں مہارت رکھتے تھے اور سمندر کنارے رہنے والے ایسے بھی ہنرمند تھے جو بڑی بڑی کشتیوں کی صنعت سے منسلک تھے۔

مگر ہم جس سمندری کنارے کی بستی اور بندرگاہ سے گزر رہے ہیں، موجودہ وقت میں اس کے آثار سمندری کنارے سے 12 کلومیٹرز شمال کی طرف ہے مگر یہ جن دنوں کا ذکر کررہے ہیں تب سمندری کنارہ اتنا دور نہیں تھا بلکہ بالا کوٹ کے بہت نزدیک تھا۔ سندھو گھاٹی کی اس قدیم بستی کی کھدائی 1973ء سے 1975ء کے درمیان جارج فرینکلن ڈیلس (George Franklin Dales) نے کروائی تھی۔ میرے سامنے جارج فرینکلن کی تفصیلی رپورٹ کے علاوہ ایک اور رپورٹ اس قدیم بستی کے متعلق موجود ہے جسے William Raymond Belcher نے تحریر کیا ہے۔

یہ رپورٹ ماہی گیری کے حوالے سے ہے جس میں وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ’یہاں سے جو مچھلیوں کی ہزاروں ہڈیاں اور ان کے کنکال ملے ہیں وہ مچھلیوں کی 19 نسلوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رہائش والے ٹیلے پر سے جن مچھلیوں کے کانٹے ملے ہیں اُن میں دوتھر فش (Grunter)، سنگھاڑا (Marine Catfish)، مُسکے (Croaker) اور travel fish Jack کی کافی بہتات ہے۔ یہ مچھلیاں آج بھی سمندری کنارے رہنے والی بستیوں کی خوراک میں شامل ہیں۔ جبکہ آبادی سے کچھ پہلے کی مچھلیوں کے ساتھ جو دوسری مچھلیاں ملی ہیں ان میں Shark, Sea bream, Barracuda, Hair tail کے ساتھ، ساتھ Requiem Shark کے نوکیلے دانتوں والے جبڑے بھی شامل ہیں جنہیں مچھلی کاٹنے والے اوزاروں سے کاٹا گیا ہے۔ ساتھ میں Cuttlefish کی ہڈی کا ایک ٹکڑا اور Cephalopod کی ایک نسل کی نشانی ملی ہے‘۔

اس مختصر سی رپورٹ میں اگر ہم ڈھونڈیں تو کئی حقائق پوشیدہ ہیں۔ روزانہ کے کام کاج، خوراک کے متعلق اور خاص طور پر ماہی گیری کے حوالے سے۔ کیونکہ اس رپورٹ میں دو قسم کی شارکس کا ذکر کیا گیا ہے اور شارک پکڑنا کوئی عام شکار نہیں۔ اس کے لیے سنجیدہ تجربے، سمندر کی مکمل سوجھ بوجھ، موسموں کے تغیرات، مدوجزر کے متعلق اچھی طرح معلوم ہونا انتہائی ضروری تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ اوشنوگرافی کا علم اچھی طرح جانتے تھے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔

بالاکوٹ کی یہ قدیم بستی 180x160 میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایس-آر-راؤ لکھتے ہیں کہ یہ قدیم بندر اور بستی مکران کے سمندری کنارے پر ہے۔ اس کی کھدائی کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھو گھاٹی اور سُمیر تہذیبوں کے آپس میں گہرے بیوپاری تعلقات تھے۔ بالا کوٹ سندھو تہذیب کے عروج کے زمانے میں بھی ایک متحرک بستی تھی۔ یعنی یہ دو قدیم زمانوں کی انتہائی اہم بستی ہے۔ ’پیرڈ A‘ کی کھدائی سے سندھو تہذیب والے عروج کے زمانے کی ثقافتی چیزیں جیسے پتھر کے چاقو، تولنے کے لیے پتھر کے باٹ، پکے ہوئے اور گلکاری کیے ہوئے برتن اور کچھ مہریں ملی ہیں۔ مگر تعمیر کے حوالے سے فقط دو دیواریں ملی ہیں۔ ایک بڑی بھٹی اور دوسری کئی تنوریاں ملی ہیں جو دیواروں سے باہر کی طرف ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صنعتی ایریا تھا جہاں ایسی چیزیں تیار ہوتی تھیں جنہیں پکانے کی ضرورت پڑتی تھی جیسے مٹی کے برتن اور جانوروں کی مورتیاں وغیرہ۔ ’پیرڈ B‘ کی کھدائی سے انڈس ویلی کے اوائلی زمانے (Early Indus) کے آثار نمایاں ہوئے جن میں تعمیرات کچی اینٹوں سی کی گئی ہیں اور برتنوں پر جانوروں کے ریوڑوں اور جُھنڈوں کی لکیروں میں تصاویر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

بالا کوٹ کی اس بستی کی دوسری رپورٹ میرے سامنے جارج فرینکلن ڈیلس کی ہے جس نے اس بستی کی کھدائی کروائی، یہ انتہائی اہم رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ میں کچھ ایسے انکشافات ہیں جو یقیناً حیران کردینے والے ہیں۔ اس نے یہاں ایک ایسی صنعت کی بنیادیں ڈھونڈ نکالیں جو انڈس ویلی کی خوبصورتی میں ایک انتہائی اہم اضافے کا سبب بنی اور اس کی باقیات آج تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اگر آپ نے موہن جو دڑو سے ڈانسنگ گرل کا کانسی کا بنا مجسمہ دیکھا ہے تو اس کا دایاں بازو آپ کو چوڑیوں سے بھرا نظر آئے گا اور بائیں کلائی میں بھی کچھ کنگن نظر آئیں گے۔ یہ وہ shell bangles ہیں جن کے پیداواری سمندر کنارے کی وہ بستیاں تھیں جو یہاں سے کَچھ اور گجرات تک پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ اگر موہن جو دڑو یا ہڑاپا کے زیورات دیکھیں گے تو آپ کو سنکھ (Shell-fish) اور سمندر کنارے ملنے والے Bay scallop shell سے بنے بہت سے زیورات دیکھنے کو ملیں گے۔

1980ء کی دہائی میں بالا کوٹ کی یہ بستی جو سنکھوں سے بننے والی چوڑیوں میں ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اس کی کھدائی ہوئی۔ 1996ء میں کَچھ کے جنوبی کنارے پر ایسی ایک بستی ’گولا ڈھورو‘ کی کھدائی بڑودہ یونیورسٹی نے کی اور وہاں سے بھی سنکھ سے بنی چوڑیوں کے گدام ملے جس سے یہ بات سامنے آئی کہ موہن جو دڑو کے عروج کے زمانے میں یہ صنعت اپنے عروج پر تھی۔ آپ اگر آرکیالوجی کے قدیم سمندری راستے دیکھیں تو کراچی سے کَچھ بُھج، ڈھولا ویرا گجرات تک لین دین تھی کیونکہ سمندری کنارہ صرف ایک ہی تھا۔

بالا کوٹ کی سَنکھ سے بنی چیزوں کی فیکٹری اور ان چیزوں کے متعلق بہت ساری معلومات آپ تک پہنچانی ہے۔ یہاں بننے والی سنکھ کی ان چوڑیوں کے حوالے سے میں ایک بڑی اور شاندار بات آپ سے کرنے والا ہوں جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ نہ اس سے قبل آپ نے یہ بات کہیں پڑھی ہوگی اور نہ سُنی ہوگی۔ تو ہم جلد ہی ملتے ہیں وندر نئے کے کنارے بالاکوٹ کی اس قدیم بستی میں۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔