’کئی برسوں سے اسموگ کا مسئلہ ہے، صورتحال سنگین ہونے پر ہی حکومت کو خیال آتا ہے‘
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس کے چیئرپرسن نے کہا ہے کہ اسموگ کا مسئلہ کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے، جب اسموگ بڑھتی ہے، تب ہی حکومت کو خیال آتا ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر سیمی ایزدی کی زیرِ صدارت ہوا، اجلاس میں ڈی جی ای پی اے نے پنجاب میں بڑھتی ہوئی اسموگ پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں مجموعی انڈسٹریز کی تعداد چھتیس سو ہے، پنجاب میں اسٹیل انڈسٹری میں ایندھن کے استعمال سے بھی اسموگ ہوتی ہے۔
چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ اسموگ کا مسئلہ کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے، جب اسموگ بڑھتی ہے، تب حکومت کو خیال آتا ہے۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پچہتر فیصد اینٹوں کے بھٹے زگ زیگ طریقہ کار پر چلتے ہیں جب کہ پچیس فیصد اینٹوں کے بھٹوں سے فضائی آلودگی ابھی بھی ہورہی ہے۔
بتایا گیا کہ اسموگ کی روک تھام کے لیے لاہور ٹریفک پولیس کے تعاون سے سات ہزار سے زائد نوٹسز جاری کیے ہیں، چار سو انیس ملین جرمانے کیے گیے ہیں اور تین ہزار آٹھ سو پچاس ایف آئی آرز کی گئی ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیاکہ مصنوعی بارش برسا کر بھی اسموگ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، کمیٹی اراکین سینیٹر ہمایوں مہمند اور تاج حیدر نے کہا کہ آپ نے اتنے سارے پیسہ خرچ کردیے لیکن اسموگ میں کوئی خاص کمی نہیں آئی، آپ اس کی روک تھام کے لیے کوئی طویل پالیسی بنائیں۔
اجلاس میں کوپ اٹھائیس سے متعلق سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے بریفننگ دیتے ہوئے کہا کہ کوپ 28 میں ہماری پویلین کی کارکردگی کافی بہتر رہی ہے، پاکستان لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کے لیے بھی منتخب ہوا ہے، یہ پہلی کوپ تھی جس میں دو ججز بھی آئے تھے، پاکستان واحد ملک ہے جس میں مینگروو بڑھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ میں مینگرووز کی تعداد میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان کا کوپ 28 میں ایک روپیہ بھی نہیں لگا ہے، ورلڈبینک نے پویلین بناکردی،مختلف اداروں کی جانب سے فنڈنگ کی گئی تھی۔
سینیٹ کمیٹی میں بریفنگ کے دوران انکشاف ہوا کہ پنجاب میں چلنے والی چوالیس فیصد ٹرانسپورٹ، پچیس فیصد انڈسٹریز اور فصلوں کے جلنے سے اٹھنے والے دھواں سے پیدا فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر بار اسموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔