ادب، اعزازات اور اموات: سال 2023ء کا ادبی جائزہ
نئے سال کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ سال 2023ء خاصا ہنگامہ خیز رہا، مسلسل گہما گہمی اور بھاگ دوڑ۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں کئی اہم اور بڑے واقعات رونما ہوئے۔ سیاست سے صحافت تک کئی کروٹوں کے ہم شاہد بنے۔
اس جائزے کا مقصد رواں برس ادب کی دنیا میں رونما ہونے والے کچھ ایسے واقعات کا احاطہ کرنا ہے جنہوں نے اس شعبے پر اپنے دیرپا اثرات مرتب کیے۔ وہ اثرات جن سے نئے راستوں کی نشان دہی ہوئی اور نئے مسافروں کو تحریک ملی۔ اس سلسلے میں عالمی ادب کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جاری سرگرمیوں اور واقعات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ البتہ پہلے ہم ان قد آور ادبی شخصیات کو یاد کریں گے جو اس سال ہم سے بچھڑ گئیں۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے مفر نہیں۔ البتہ کسی بڑے تخلیق کار کی رخصتی سے جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ عشروں پُر نہیں ہوتا۔ اس برس بھی کئی ایسے قد آور ادیب دنیا سے رخصت ہوئے جنہوں نے اپنے فن اور تخلیقات سے عشروں تک ادب کی آب یاری کی۔
اس فہرست میں پہلا نام ممتاز شاعر، ڈراما نویس، کالم نگار امجد اسلام امجد کا ہے۔ 10 فروری 2023ء کو یہ عہد ساز تخلیق کار ہم سے جدا ہوا۔ انہوں نے اپنے باکمال اشعار اور یادگار ڈراموں سے اردو زبان و ادب کے وقار میں اضافہ کیا۔ امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اردو کے استاد کی حیثیت سے کریئر کا آغاز کیا۔ فن شاعری اور ڈراما نویسی کے ہنر نے ان کی مقبولیت کو اوج بخشا۔ پاکستانی ناظرین کو ’وارث‘ جیسا پلے دینے والے امجد اسلام امجد پی ٹی وی اور اردو سائنس بورڈ میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ انہیں تمغہِ حسن کارکردگی اور ستارہِ امتیاز سے نوازا گیا۔
اسی برس ممتاز مدرس، صحافی اور قلم کار، شاہدہ قاضی بھی ہم سے جدا ہوئیں۔ 1944ء میں پیدا ہونے والی شاہدہ قاضی کو پاکستانی صحافت میں خواتین کے لیے مشعلِ راہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی سے جرنلزم میں ماسٹرز کرنے والی اولین طالبہ تھیں جنہوں نے بعدازاں اسی شعبے کی پہلی خاتون چیئرپرسن بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ 1966ء میں وہ ڈان اخبار کا حصہ بنیں اور پہلی خاتون رپورٹر قرار پائیں۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے بھی خدمات سرانجام دیں۔ پی ٹی وی کی اولین پروڈیوسرز میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ پروفیسر شاہدہ قاضی نے دو نسلوں کی آب یاری کی۔ ان کا انتقال 29 اکتوبر 2023ء کو 79 برس کی عمر میں ہوا۔
ایک اور سانحہ 12 دسمبر کو پیش آیا جب معروف دانشور، پنجابی اور اردو زبان کے ادیب، شاعر، محقق اور بائیں بازو کے معروف سیاسی کارکن احمد سلیم 78 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، ادب اور ثقافت پر ان کی گہری نظر تھی۔ احمد سلیم نے درجنوں کتابیں لکھیں۔ ان کے تراجم خاصے مقبول ہوئے۔ شیخ ایاز کا پنجابی زبان میں ترجمہ ان کا بڑا کارنامہ تھا۔ 2010ء میں احمد سلیم کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں پرائیڈ آف پرفارمنس پیش کیا گیا تھا۔
2023ء ہی وہ سال ہے کہ جب عہد ساز ادیب میلان کنڈیرا نے جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ 1929ء میں چیکوسلواکیہ (موجودہ چیک ریپبلک) کے ضلع برنو میں پیدا ہونے والے میلان کنڈیرا کا شمار اپنے سیاسی سروکار، عصری موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے 21ویں صدی کے اہم ترین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔
جوانی میں کمیونسٹ طرزِ فکر اختیار کرنے والے کنڈیرا کو بعدازاں کیمونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنے ملک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے ناقد تھے۔ 1975ء میں میلان کنڈیرا نے جلاوطنی اختیار کی اور فرانس کا رخ کیا۔ یہ ایک نئی جست تھی۔ 1979ء میں میلان کی چیک شہریت منسوخ کردی گئی اور ان کی کتابوں پر پابندی لگادی گئی۔ آنے والے برسوں میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی زبان میں ادب تخلیق کیا جس نے عالم گیر شہرت حاصل کی۔ وہ خود کو فرانسیسی ادیب کے طور پر شناخت کرتے تھے۔
میلان کنڈیرا کو نوبیل انعام کا موزوں ترین امیدوار تصور کیا جاتا تھا مگر اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے وہ کبھی اس ایوارڈ کے حق دار قرار نہیں پائے۔ البتہ انہیں دنیا کے دیگر اہم اعزازات سے نوازا گیا۔ میلان کنڈیرا نے ایک خاموش زندگی گزاری۔ انٹرویوز اور میل میلاپ سے گریز کیا البتہ ان کا طرزِ فکر اور زندگی کی جھلکیاں ہمیں ان کے فکشن میں واضح دکھائی دیتی ہیں۔
’دی جوک‘ ان کا پہلا ناول تھا جس کا خاصا چرچا ہوا۔ بعد ازاں وہ ’خندہ اور فراموشی کی کتاب‘، ’وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘ اور ’بقائے دوام‘ جیسے ناولز کے ذریعے ہمارے سامنے آئے۔ انہوں نے سیاسی افکار کی شکست و ریخت، ہجرت، ناسٹلجیا، موسیقی، یادداشت اور لکھنے کے عمل کو اپنا موضوع بنایا۔ کنڈیرا طویل علالت کے بعد 11 جولائی 2023ء کو پیرس میں 94 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔
معروف شامی ادیب خالد خلیفہ کا انتقال بھی رواں برس 2 اکتوبر کو ہوا۔ وہ ایک ناول نگار، کالم نویس اور ڈراما نگار کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ ہر دور میں حکومت وقت کے ناقد رہے۔ خانہ جنگی کے زمانے میں بھی انہوں نے اپنا وطن نہیں چھوڑا۔ دیگر ایوارڈز کے علاوہ اُنہیں نجیب محفوظ لٹریچر پرائز سے نوازا گیا جو مصر کے اعلیٰ ترین ادبی اعزازات میں سے ایک ہے۔
نوبیل پرائز کو ادبی دنیا کا اہم ترین ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے معیارات کڑے اور کسوٹی پرپیچ ہے۔ یہ جس ادیب کے حصے میں آتا ہے، نہ صرف اس کی اپنی تخلیقات بلکہ اس کی مادری زبان میں لکھے جانے والے دیگر اہم ادب پارے بھی دنیا کی نظروں میں آجاتے ہیں۔ البتہ 2023ء کا معاملہ مختلف تھا کہ اس بار جس ادیب کا انتخاب ہوا وہ پہلے ہی ایک نامی گرامی شخص تھا جس کے کام کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا تھا۔ رواں برس ناروے کے معروف ادیب، جون فوسے کو نوبیل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے تیسرے نارویجن ادیب ہیں۔
ان کے قلم سے درجنوں ناولز، نظمیں اور ڈرامے نکلے۔ بالخصوص ڈراموں کے میدان میں وہ سند تصور کیے جاتے ہیں۔ جون فوسے کو عہد جدید کا ہینرک ابسن کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ ناروے سے تعلق رکھنے والے ابسن کو شیکسپئر کے بعد ڈرامانویسی کا اہم ترین قلم کار تصور کیا جاتا ہے، جس نے ریئل ازم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جدید ڈرامے کی بنیاد رکھی۔ ان کے کام کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
نوبیل کا انتخاب کرنے والی کمیٹی نے 64 سالہ ادیب کے نام کا اعلان کرتے ہوئے جون فوسے کے تخلیق سے بھرپور ڈراموں اور نثر کی تحسین کی جس نے ان کہی باتیں کہنے کے لیے آواز مہیا کی۔ 29 ستمبر 1959ء کو ناروے میں پیدا ہونے والے جون فوسے کو نوبیل سے قبل بھی کئی اہم اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔
نوبیل کے بعد ادبی دنیا کا اہم ترین ایوارڈ بکر پرائز تصور کیا جاتا ہے (چند تجزیہ کار اِسے نوبیل سے زیادہ اہم گردانتے ہیں)۔ رواں برس آئرش مصنف پال لِنچ نے اپنے ناول ’پرافٹ سونگ‘ کے لیے بُکرز پرائز اپنے نام کیا۔ پال لنچ یہ باوقار انعام جیتنے والے پانچویں آئرش مصنف ہیں۔ یہ ناول مغربی جمہوریتوں میں بدامنی کو موضوع بناتے ہوئے آئرلینڈ کے مطلق العنانیت کے شکار ہونے کی منظر کشی کی ہے۔ لنچ نے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب لکھنا ان کے لیے سہل نہیں تھا مگر اسے لکھ ڈالنا ہی ان کا حتمی فیصلہ اور انتخاب تھا۔ پال لِنچ کا ایک اہم حوالہ فلمی تنقید بھی ہے۔ انہوں نے آئرلینڈ کے سنڈے ٹریبیون کے لیے ایک طویل عرصے تک فلموں پر تجزیے لکھے۔
جیوری کی سربراہ اور ممتاز کینیڈین ناولسٹ ایسی ادوگیان نے پال لنچ کے مناظر کی شفافیت اور داستان گوئی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ناول ان تمام سماجی اور سیاسی پریشانیوں اور بے چینیوں کا احاطہ کرتا ہے جو ہمارے موجودہ عہد کی پہچان بن چکی ہیں۔
پلٹزر پرائز کے فاتحین بھی رواں برس زیرِبحث رہے۔ پلٹزر صحافت، ادب، تھیٹر اور موسیقی کے شعبے میں دیے جانے والے معتبر اعزازات میں سے ایک ہے۔ 2023ء میں ایرانی نژاد امریکی خاتون، سناز طوسی نے اپنے پلے ’انگلش‘ کے لیے پلٹزر پرائز اپنے نام کیا۔ یہ دلچسپ ڈراما ایران میں انگریزی زبان کی ایک کلاس پر مشتمل ہے۔ فکشن کی کیٹیگری میں امریکا سے تعلق رکھنے والی باربرا کنگ سولور کے ناول Demon Copperhead کو ایوارڈ پیش کیا گیا جو چارلس ڈکنز کے ناول ڈیوڈ کاپر فیلڈ سے متاثر ہے۔ ساتھ ہی ارجنٹائن نژاد امریکی فکشن نگار ہرنین ڈی ایز کا ناول ’ٹرسٹ‘ بھی اس ایوارڈ کا حق دار قرار پایا۔
بات پاکستان کی جائے تو یہاں بھی کئی اہم کتب کو مختلف ایوارڈز اور اعزازات سے سے نوازا گیا۔ اس ضمن میں آرٹس کونسل کی 16ویں اردو کانفرنس کا ذکر ضروری ہے جہاں 6 مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی کتب کو ایوارڈز پیش کیے گئے۔ یہ ایوارڈز خفیف مخفی کی خواب بیتی (مرزا اطہر بیگ)، یارم پیارم (زبیدہ متیلو)، من کسے نہاں (غفور شاد)، پشتون دانش (نورالامین یوسف زئی)، مردا جیون دی (محمد حفیظ خان) اورمینڈل دا قانون (جمیل احمد پال) کے حصے میں آئے۔
رواں برس کا اختتام کراچی کتب میلے سے ہوا جس نے کامیابی کے تمام ریکارڈز توڑ دیے اور اس تصور کو غلط ثابت کیا کہ پاکستان میں ادبی قارئین کی کمی ہے۔ پانچ روز تک ایکسپو سینٹر میں لگنے والے اس بک فیئر میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور کتابوں کی خرید و فروخت میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ مارچ میں لاہور میں پانچ روزہ بک فیئر سجا تھا جس میں شائقین ادب نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور کتاب دوستی کا ثبوت دیا۔ اس کے علاوہ بھی ملک بھر میں مختلف شہروں، جامعات میں چھوٹے بڑے کتب میلے سجتے رہے جو ایک مثبت روایت ہے۔
ہر سال کی طرح اس برس بھی پاک و ہند میں اردو اور دیگر زبانوں کے ادب سے متعلق کانفرنسس، سیمینارز، فیسٹیولز کا انعقاد کیا گیا۔ اس ضمن میں دہلی میں منعقدہ جشن ریختہ اہم ہے جو تین روز جاری رہا۔ ریختہ کے پلیٹ فورم سے اردو زبان و ادب کی ترویج کا سلسلہ ایک قابلِ ستائش اقدام ہے۔ البتہ مبصرین نے نشان دہی کی ہے کہ بی جے پی سرکار آنے کے بعد ریختہ میں اردو رسم الخط کو برتنے کے چلن میں کمی آئی ہے۔ اس ضمن میں مختلف ویڈیوز بھی گردش کرتی رہیں مگر مجموعی طور پر یہ ایک اہم ادبی فیسٹول تھا۔
ادھر آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس بھی ماہ نومبر/دسمبر میں زیرِبحث رہی۔ 16 برس سے جاری یہ سلسلہ اب شہر کراچی کی شناخت بن چکا ہے۔ 150 سے زائد مندوبین پر مشتمل اس کانفرنس میں شرکا نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس سے قبل ادب فیسٹول کی مجلس سجی تھی جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے، ایاز میلو کی بازگشت ہے۔ مختلف جامعات میں بھی کانفرنسس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا جس سے فن و ادب کے فروغ کی نئی راہیں ہموار ہوئیں۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔