نقطہ نظر

دھنیا جس کے بغیر ہماری چٹنیاں اور مصالحے نامکمل ہیں

برصغیر کے خطے میں استعمال کی جانے والی زیادہ تر چٹنیاں اور مصالحہ جات تازہ دھنیا کے بغیر نامکمل محسوس ہوتے ہیں۔

دھنیا سب سے زیادہ اُگائی جانے والی ہری سبزی ہے جسے نہ صرف کمرشل سطح پر بلکہ گھریلو سطح پر بھی بڑے پیمانے پر اُگایا جاتا ہے۔ دھنیے کو برصغیر کے پکوانوں کی سجاوٹ کے لیے کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ پکوانوں میں اپنی مخصوص خوشگوار مہک شامل کرتا ہے۔ برصغیر کے خطے میں استعمال کی جانے والی زیادہ تر چٹنیاں اور مصالحہ جات تازہ دھنیے کے بغیر نامکمل محسوس ہوتے ہیں۔

دھنیا نا صرف گھروں میں اگانے کے لیے آسان ترین سبزی ہے بلکہ اس کی افزائش کے لیے زیادہ جگہ بھی درکار نہیں ہوتی۔ دھنیے کے بیجوں کو تقریباً ہر طرح کے کنٹینر میں کسی بھی طرح کے پودوں کے ساتھ اُگایا جاسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دھنیے کو کسی بھی خالی، اور کھلی زمین پر اگایا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی جڑیں دیگر جڑی بوٹیوں اور سبزیوں کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہیں۔ آج ہم اپنی توجہ دھنیے کی افزائش، افزائش میں اس کی ضروریات اور آخر میں دھنیے کی صحت مند افزائش کو یقینی بنانے کے لیے درکار حفاظتی اقدامات اور احتیاط پر مرکوز کریں گے۔

بیجوں اور مٹی کے معیار، درجہ حرارت اور بیج بونے کے وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے دھنیے کے پتوں کو 2 سے 3 ہفتوں میں اُگ جانا چاہیے۔ چونکہ دھنیے کے پودے کا ٹراسپلانٹ کرنا موزوں نہیں ہے ہوتا اس لیے میں مشورہ دوں گا کہ آپ اس پودے کو اگانے کے لیے ایک جگہ مختص کرلیں۔

عموماً یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ دھنیے کے بیجوں کو بوتے وقت ہر پودے کے درمیان 4 سے 6 انچ کا فاصلہ رکھا جائے۔ یہ عمل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اچھی جگہ اور بھرپور ہوا ملنے کے باعث دھنیے کا پودا مضبوط ہو اور اس کے پتے بھی بڑے ہوں۔ تاہم جب بات دھنیے کے پودے کی آتی ہے تب میں مثالی ضابطوں کو ترجیح نہیں دیتا۔

میں 6 سے 8 بیجوں کو ایک ہی مقام پر بونے کو ترجیح دیتا ہوں۔ پھر میں ایک مقام سے دوسرے مقام کے درمیان 4 انچ کا فاصلہ رکھتا ہوں۔ اس سے ہمیں چھوٹی سی جگہ میں دھنیے کے ہرے بھرے پتوں کی افزائش کا خوبصورت منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔

باغبانی سے وابستہ بہت سے لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ دھنیے کے بیجوں کو ایک ایسے گملے یا کنٹینرز میں اگایا جانا چاہیے جو کم از کم 8 انچ گہرا ہو۔ تاہم میں ترجیح دیتا ہوں کہ اسے چھوٹے کنٹینر میں اگاؤں جوکہ صرف 4 انچ کی گہرائی والا ہو تاکہ یہ کم سے کم جگہ گھیرے۔

میں کم قیمت پر وہ پلاسٹک کریٹس بھی خرید لیتا ہوں جو پھل فروشوں کے کام کے نہیں ہوتے۔ پھر میں ان کریٹس میں پلاسٹک شیٹ بچھا دیتا ہوں اور پھر اس میں نکاسی کے لیے چند سوراخ کردیتا ہوں۔ اس کے بعد میں اس کریٹ کے نصف سے تین چوتھائی حصے میں مٹی ڈال دیتا ہوں تاکہ اس میں دھنیا اُگا سکوں۔ اس مقصد کے لیے آپ مناسب سائز کے تھرماکول کے ڈبے بھی لے سکتے ہیں اور انہیں اپنی بالکونی یا باغبانی کے لیے مختص مقام پر بھی رکھ سکتے ہیں۔

جیسے ہی دھنیے کے پتے اُگنے لگیں، تو اس پودے ہر 15 پندرہ دنوں بعد باقاعدگی سے نائٹروجن کی کھاد فراہم کی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں مرغی کے فضلے بنی کھاد، گائے کے گوبر کی کھاد، کافی گراؤنڈز اور استعمال شدہ چائے کے پتے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

پتوں کی افزائش کے بعد پودے کو زیادہ پانی ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ پودوں کو صرف اتنا ہی پانی فراہم کیا جائے کہ اگلی مرتبہ پانی دینے تک گملے کی مٹی نم رہے۔ ضرورت سے زیادہ پانی دینا پودے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، خاص طور پر ضرورت سے زیادہ پانی جمع ہونے کی وجہ سے جڑیں خراب ہوسکتی ہیں۔

موسمِ سرما میں دھنیے کے پودے کو ہر روز کم از کم 4 سے 5 گھنٹوں تک دھوپ فراہم کی جانی چاہیے۔ جبکہ گرمیوں میں اسے سائے میں رکھنے کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ اس کے پتے موسمِ گرما کی دھوپ میں جل جاتے ہیں۔ عام طور پر تناؤ میں دھنیا جل سکتا ہے۔ دھنیے کے پودے کے خراب ہونے کی وجوہات صرف زیادہ پانی دینے تک محدود نہیں، بلکہ کم پانی دینا، ضرورت سے زیادہ گرمی اور درجہ حرارت، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور سورج کی زیادہ روشنی بھی پودے کی خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔

پتوں کی افزائش سے پہلے پودے پر گھونگھے اور سلگس بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مرحلے میں پودے، گملے اور پتوں کی خصوصی دیکھ بھال کی جائے۔ پتے کھانے والے اور نمی میں رہنے والے کیڑوں کے حملے سے دھنیے کے پودے کو بچانا ضروری ہوتا ہے۔

پندرہ دونوں تک بار بار کٹائی کے ساتھ ساتھ کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کیا جا سکتا ہے تاکہ نہ صرف کیڑوں کے حملوں کو روکا جا سکے بلکہ دھنیا کے بڑے پودوں، تنے اور پتوں کی پیداوار کو یقینی بنایا جاسکے۔

آخر میں ہرے پتے کھانے والے پرندے جن کے لیے یہ پودے پسندیدہ غذا ہیں، ان سے بچانے کے لیے دھنیے کے پودوں پر نیٹ رکھیں۔


یہ مضمون 17 دسمبر 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر خواجہ علی شاہد

مصنف ایک طبیب ہیں اور آرگینک کچن گارڈننگ سے متعلق ایک یوٹیوب چینل ‘ڈاکٹری گارڈننگ’ کے میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔