نقطہ نظر

سالنامہ: ’کھیلوں میں سال 2023ء پاکستان کے لیے کچھ خاص اچھا نہیں رہا‘

پاکستان میں کھیلوں کی بات کی جائے تو گزشتہ کئی سالوں سے بات زیادہ تر کرکٹ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے لیکن اس سال سب سے اچھی خبر فٹبال کے میدان سے آئی۔

رواں سال کھیل کے میدانوں پر نظر ڈالی جائے تو سوائے چند ایک اچھی خبروں کے کھیلوں میں سال 2023ء پاکستان کے لیے کچھ خاص اچھا نہیں رہا۔ پاکستان میں کھیلوں کی بات کی جائے تو گزشتہ کئی سال سے بات زیادہ تر کرکٹ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی کھلاڑی زیادہ کھیلوں میں حصہ لے پاتے ہیں نہ بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔

2023ء میں کھیلوں کی سب سے اچھی خبر فٹبال کے میدان سے آئی جہاں تاریخ میں پہلی بار پاکستانی ٹیم نے فیفا ورلڈکپ کوالیفائرز کے دوسرے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ فیفا ورلڈکپ کوالیفائرز کے پہلے مرحلے میں پاکستان کا مقابلہ کمبوڈیا سے تھا۔ کمبوڈیا میں ہونے والا لیگ برابر رہا لیکن پاکستان میں ہونے والے دوسرے لیگ میچ میں پاکستانی ٹیم نے فتح حاصل کرکے تاریخ رقم کردی۔ یہ فتح پاکستان میں کھیلوں کے شائقین کے لیے سال کی سب سے بڑی خوشخبری تھی۔

اگرچہ دوسرے مرحلے میں ہونے والے دونوں میچز میں پاکستانی ٹیم کو شکست ہوئی اور شاید اگلے چار میچز میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑے لیکن فی الوقت یہ پاکستان میں فٹبال کی بحالی کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ پاکستان میں فٹبال کے حوالے سے جوش و خروش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاجکستان کے مابین جناح اسٹیڈیم اسلام آباد میں ہونے والے میچ میں 18 ہزار سے زائد تماشائی موجود تھے جو ایک بڑی شکست کے باوجود مایوس نہیں تھے۔

فٹبال کے علاوہ اسکواش کے کورٹ سے بھی طویل عرصے کے بعد ایک اچھی خبر اس وقت ملی جب جولائی میں حمزہ خان نے ورلڈ جونیئر اسکواش چیمپیئن شپ میں فتح حاصل کی۔ حمزہ نے میلبرن میں مصر کے محمد ذکریا کو 1-3 سے شکست دے کر یہ اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ یہ 1986ء کے بعد پہلا موقع تھا جب کسی بھی پاکستانی اسکواش کھلاڑی نے جونیئر اسکواش چیمپیئن شپ اپنے نام کی۔

اسکواش میں اس سال حمزہ خان کے علاوہ نور زمان، ناصر اقبال اور عاصم خان بھی کچھ فتوحات حاصل کرتے رہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اگر ان کھلاڑیوں کو مناسب سہولیات فراہم کی جائیں تو ان سے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

اس سال ایشین اتھلیٹس کے لیے ایشین گیمز سب سے اہم پڑاؤ تھا اور پاکستانی شائقین کو بھی توقع تھی کہ پاکستانی اتھلیٹس چند میڈل ضرور حاصل کریں گے۔ خاص طور پر ارشد ندیم، مینز ہاکی ٹیم اور مینز و ویمنز کرکٹ ٹیموں سے تو میڈل کی بہت زیادہ توقعات تھیں۔ ویمنز کرکٹ ٹیم اس ایونٹ سے قبل جنوبی افریقہ کے خلاف بھرپور فارم میں تھی تو مینز کرکٹ ٹیم میں کئی بہترین انٹرنیشنل ٹی20 کرکٹرز موجود تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک جانب جہاں ارشد ندیم ان فٹ ہوکر مقابلے میں شرکت ہی نہ کرپائے وہیں دوسری جانب ہاکی اور دونوں کرکٹ ٹیمز کی کارکردگی شدید مایوس کُن رہی۔

پاکستان سپر لیگ 2023ء کا شاندار ایونٹ لاہور قلندرز کے مسلسل دوسری بار چمپیئن بننے پر ختم ہوا۔ یہ ایک شاندار ٹورنامنٹ کا شاندار فائنل تھا جہاں میچ کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا۔ ملتان سلطان کے بلے باز تیسرے رنز کی تلاش میں رن آؤٹ ہوگئے اور معرکہ صرف ایک رن سے لاہور قلندرز کے نام رہا۔ 19ویں اوور میں حارث رؤف کی باؤلنگ پر عباس آفریدی کی شاندار ہٹنگ کے بعد کسے یقین تھا کہ لاہور قلندرز اپنے ٹائٹل کا دفاع کر پائے گی لیکن زمان خان کے شاندار یارکرز ملتان سلطان کے بلے بازوں پر حاوی رہے۔

یہ ایک ایسا ٹورنامنٹ تھا جس میں بے شمار بڑے اسکور دیکھنے کو ملے۔ یوں تو چاروں اسٹیڈیمز میں خوب رنز بنے لیکن راولپنڈی اسٹیڈیم کی پچ پر تو بڑے اسکورز کی برسات ہی ہوگئی تھی۔ چھکے چوکے، نصف سنچریاں اور سنچریاں برس رہی تھیں اور باؤلرز پناہ مانگ رہے تھے۔ پاکستان سپر لیگ جو ہمیشہ سے باؤلرز کی لیگ کہلائی جاتی رہی، اس میں پہلی بار اتنے تسلسل سے بڑے اسکور دیکھنے کو ملے۔ اتنے زیادہ تسلسل سے بڑے اسکور دیکھ کر شائقین کچھ اُکتا بھی گئے کہ میدان میں برابر کا مقابلہ ہی نہیں رہا۔

2023ء میں پاکستانی ویمنز ٹیم کی کارکردگی بہت شاندار تو نہیں رہی لیکن جنوبی افریقی ویمنز ٹیم کو ٹی20 سیریز میں کلین سویپ، ایک ون ڈے میچ میں فتح اور پھر نیوزی لینڈ میں ٹی20 سیریز جیتنے والی پہلی ایشین ٹیم کا اعزاز کچھ کم کارکردگی بھی نہیں۔ ہاں اگر پاکستانی لڑکیاں ایشین گیمز میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر پاتیں تو 2023ء ان کے لیے شاندار سال بن سکتا تھا۔

اگر پاکستانی مینز کرکٹ ٹیم کی بات کی جائے تو سوائے سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز میں فتح کے ٹیم اس سال کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ پچھلے دو سالوں سے ٹی20 ورلڈکپ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والی پاکستانی ٹیم سے توقع تھی کہ وہ ون ڈے ورلڈکپ میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ بہتر کارکردگی کی توقع کچھ یوں بھی تھی کہ پاکستانی ٹیم پچھلے 3 سالوں سے ون ڈے کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی آرہی تھی۔

پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم، امام الحق اور فخر زمان بہت عمدہ فارم میں تھے اور امید یہی تھی کہ یہ تینوں ورلڈکپ کے دوران شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ دوسری جانب شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف سے امید تھی کہ وہ اپنی شاندار باؤلنگ سے مخالف بیٹنگ لائنز کو تباہ کر دیں گے لیکن ورلڈکپ آتے آتے نہ بلے بازوں کی فارم برقرار رہی نہ ہی فاسٹ باؤلرز کی لائن اور لینتھ۔

نسیم شاہ ان فٹ ہوکر باہر کیا ہوئے، دنیا کی بہترین باؤلنگ لائن بغیر دانتوں کا شیر بن کر رہ گئی اور پھر ہر مخالف ٹیم نے ہمارے باؤلرز کی خوب دھلائی کی اور ہمارے بلے باز ہر ٹیم کے خلاف رنز بنانے میں مشکلات کا شکار رہے۔

2023ء کا آغاز پاکستانی ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ ڈرا کرکے کیا۔ سرفراز احمد کی شاندار سنچری کی بدولت پاکستانی ٹیم وہ ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب رہی ورنہ ایک وقت شکست منہ کھولے کھڑی تھی۔ آخری اوورز میں نسیم شاہ اور ابرار احمد کو میچ ڈرا کرنے کے لیے کم ہوتی روشنی میں 21 گیندیں کھیلنا پڑیں۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں پاکستانی ٹیم نے پہلا میچ تو جیت لیا لیکن اگلے دونوں میچز میں نیوزی لینڈ نے شاندار واپسی کی اور پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں ایک بار پھر کامیابی حاصل کرلی۔

متحدہ عرب امارات میں افغانستان کے خلاف ٹی20 سیریز کے لیے بابراعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی اور چند دیگر کھلاڑیوں کو آرام دیا گیا تو افغانستان کے خلاف سیریز ہی ہاتھ سے نکل گئی۔

نیوزی لینڈ نے وائٹ بال سیریز کے لیے اپنے کئی اہم کھلاڑیوں کے بغیر اپنی ٹیم پاکستان بھیجی تو پاکستانی ٹیم نے ایک طویل عرصے بعد نیوزی لینڈ کو ون ڈے سیریز میں شکست دے دی۔ نیوزی لینڈ کے تمام اہم کھلاڑی اس دوران آئی پی ایل میں مصروف تھے۔ ون ڈے سیریز تو پاکستانی ٹیم نے 1-4 سے جیت لی لیکن زیادہ تر فرسٹ چوائس کھلاڑیوں کی غیرموجودگی کے باوجود نیوزی لینڈ کی نوجوان ٹیم نے ٹی20 سیریز 2۔2 سے برابر کرلی۔

سری لنکا میں پاکستانی ٹیم نے ٹیسٹ سیریز میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اسپن ٹریکس کے باوجود سیریز 0-2 سے جیت لی۔ اس سیریز کے دوران سعود شکیل، عبداللہ شفیق اور سلمان آغا نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور بابر اعظم کی ناکامی کو ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر اثر انداز نہ ہونے دیا۔ سری لنکا میں ہی پاکستانی ٹیم نے افغانستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی 0-3 سے عمدہ کامیابی حاصل کی۔

لگ رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی ون ڈے ورلڈکپ کی تیاریاں بہت عمدگی سے چل رہی ہیں اور پاکستانی ٹیم سے ورلڈکپ میں عمدہ کارکردگی کی امید کی جانے لگی تھی۔ ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کا آغاز بھی اچھا تھا، نیپال کے خلاف فتح کے بعد بھارتی بیٹنگ لائن بھی پاکستانی باؤلنگ لائن کے سامنے بے بس نظر آئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ہر طرف سے پاکستانی باؤلرز کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے۔ زیادہ تر کرکٹ ماہرین پاکستانی باؤلنگ لائن کو دنیا کی بہترین باؤلنگ لائن قرار دے رہے تھے۔

سب اچھا چل رہا تھا اور پھر بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے دوسرے مرحلے کا وہ میچ آ گیا جس میں سب بدل گیا۔ پاکستانی فاسٹ باؤلرز جو بہترین لگ رہے تھے، عام سے باؤلر بن کر رہ گئے اور پاکستانی بلے باز تو جیسے کھیلنا ہی بھول گئے۔ اس میچ میں ایک بڑی شکست کے ساتھ ساتھ نسیم شاہ کا ان فٹ ہوجانا پاکستان کے لیے بڑا سانحہ تھا۔ بھارت سے ہار اور پھر سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم ایشیا کپ کے فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی اور پھر خبر ملی کہ نسیم شاہ ورلڈکپ میں بھی نہیں کھیل پائیں گے۔

ورلڈکپ کا آغاز پاکستانی ٹیم نے نسبتاً بہتر انداز میں کیا جہاں انہوں نے سری لنکا اور نیدرلینڈز کو اپنے پہلے دونوں میچز میں شکست دے دی۔ قومی ٹیم نے سری لنکا کے خلاف ورلڈکپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا لیکن ایک بار پھر سامنے بھارت کے ساتھ مقابلہ تھا۔ ون ڈے ورلڈکپ میں پاکستان کا بھارت کے خلاف کبھی نہ جیت پانا اور پھر احمدآباد کے ایک لاکھ سے زائد تماشائی، پاکستانی ٹیم کے پاس بھارتی باؤلنگ کا کوئی جواب تھا اور نہ ہی پاکستانی باؤلرز کوئی معجزہ دکھا پائے اور یوں ایک اور ون ڈے ورلڈکپ میچ میں بھارتی ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو باآسانی شکست دے دی۔

بھارت کے بعد آسٹریلیا سے شکست بھی لازم تھی سو ہوگئی لیکن اس کے بعد جو شکست ہوئی اس نے پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل میں رسائی کے امکانات کم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیم اور شائقین کرکٹ کو مایوسی میں بھی مبتلا کردیا۔ ون ڈے کرکٹ میں یوں تو کئی بار افغانستان کی ٹیم پاکستانی ٹیم کے خلاف فتح کے پاس آئی لیکن کبھی شعیب ملک تو کبھی عماد وسیم اور کبھی نسیم شاہ پاکستانی ٹیم کو بچاتے رہے مگر اس بار ان تینوں میں سے کوئی بھی ٹیم میں شامل نہ تھا اور نتیجتاً ہمیں افغانستان کے خلاف پہلی بار ون ڈے کرکٹ میں شکست ہوئی۔

جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستانی ٹیم لڑتی نظر آئی لیکن جیت کے بہت پاس آکر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طویل عرصے بعد باؤلرز ٹیم کو میدان میں واپس لائے لیکن ایک آخری دھکا نہ لگا سکے اور یوں ایک اور شکست نے پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل کی دوڑ سے بہت دور کر دیا۔ اب بات نیٹ رن ریٹ اور دوسری ٹیموں کے نتائج پر آچکی تھی۔ پاکستانی ٹیم نے نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کو شکست تو ضرور دی لیکن انگلینڈ کے خلاف آخری لیگ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستانی ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ سے نکل چکی تھی۔ یوں 2011ء ورلڈکپ کے بعد پاکستانی ٹیم مسلسل تیسری بار سیمی فائنل میں رسائی سے محروم رہ گئی۔

پاکستان کے ٹاپ 3 بلے باز کچھ عرصہ پہلے تک شاندار فارم میں تھے لیکن افغانستان کے خلاف فخر زمان کی فارم روٹھی تو ایشیا کپ آتے آتے امام الحق سے بھی رنز روٹھ گئے اور پھر ورلڈکپ آتے آتے بابر اعظم بھی فتح کے ساتھ ساتھ سنچریز کو ترس گئے۔

ورلڈکپ کے بعد ایک بار پھر سے وہی ہوا جو پاکستان کرکٹ میں ہر چند سال بعد ہوتا ہے۔کوچنگ اسٹاف کو اکیڈمی میں رپورٹ کرنے کا کہا گیا اور مکی آرتھر کی جگہ محمد حفیظ ٹیم ڈائریکٹر بن گئے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق پہلے ہی استعفی دے چکے تھے تو ان کی جگہ وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر بنادیا گیا۔

چیئرمین ذکا اشرف نے بابر اعظم کو پی سی بی ہیڈکوارٹر طلب کرکے وائٹ بال کرکٹ میں کپتانی سے استعفیٰ دینے اور ٹیسٹ کرکٹ میں کپتانی جاری رکھنے کا کہا تو بابر اعظم نے تینوں فارمیٹس میں کپتانی سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں شان مسعود ٹیسٹ اور شاہین آفریدی ٹی20 کپتان کے طور پر سامنے آئے۔

2023ء پاکستان کرکٹ کے لیے کچھ خاص اچھا نہیں رہا اور آج کل پاکستانی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر ہے جہاں پچھلے 27 سالوں سے پاکستانی ٹیم کبھی کوئی ٹیسٹ ڈرا کرنے میں بھی کامیاب نہیں رہی۔ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی ٹیم سال کا اختتام کسی اچھی کارکردگی سے کرنے میں کامیاب رہے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔