سال نامہ: 2023ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی اور غیر ملکی فلموں کا جائزہ
ہر گزرتا برس ہم اس اُمید پر گزارتے ہیں کہ آنے والے دن ہماری فلمی صنعت کے لیے اچھے دن لائیں گے لیکن ہر سال کا اختتام ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور ہم پھر سے خود کو دلاسا دینے لگتے ہیں۔ سوائے گزشتہ برس سے نمائش پذیر ایک پنجابی فلم ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘ کے جس نے اب تک ملکی وعالمی باکس آفس پر 400 کروڑ کے لگ بھگ کما کر خود کو پاکستان کی سب سے زیادہ کمانے والی فلم ثابت کیا ہے۔ یہ فلم غیرمعمولی ہے اور اس کا موازنہ دیگر پاکستانی فلموں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔
دیگر برسوں کی طرح یہ سال بھی پاکستانی فلمی نگری کے موسم کو کچھ خاص تبدیل نہیں کرسکا پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کو فلمی صنعت کا طائرانہ جائزہ یہاں دیں جس کو پڑھ کر آپ کو موجودہ فلمی صنعت کے احوال کا علم ہوسکے اور اس کے مسقبل کی کچھ نوید ہوسکے۔
پاکستان میں اس سال کی ابتدائی سہ ماہی میں کوئی اردو فلم نمائش پذیر نہیں ہوئی۔ یہ صورتحال بذات خود ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ اردو فلموں کے فلم ساز اپنی فلمیں بناتے ہی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال کے ابتدائی تین ماہ جنوری، فروری اور مارچ میں کوئی نئی پاکستانی فلم نمائش کے لیے سینما گھروں کی زینت نہ بن سکی۔
اپریل میں عیدالفطر کے موقع پر بیک وقت چار پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ہدایت کار فیصل قریشی کی فلم ’منی بیک گارنٹی‘، کامران شاہد کی فلم ’ہوئے تم اجنبی‘، ندیم چیمہ کی ’دوڑ‘، ابوعلیحہ کی فلم ’دادل‘ شامل ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر باکس آفس کا میدان ’منی بیک گارنٹی‘ نے مارلیا لیکن مجموعی طور پر اس فلم کی کارکردگی بھی کچھ تسلی بخش نہ تھی۔ یہ فلم اونچی دکان اور پھیکا پکوان کی مثال ثابت ہوئی، بڑے بڑے ناموں اور کاسٹ کے باوجود فلم بینوں کو یہ فلم کچھ خاص متاثر نہ کرسکی۔
عید پر ریلیز ہونے والی ان چاروں اردو فلموں میں کامران شاہد کی ’ہوئے تم اجنبی‘، فلم کے نام پر ایک بھیانک تجربہ تھا۔ انہوں نے ایک اچھا موضوع ضائع کردیا۔ کوئی موازنہ تو نہیں بنتا لیکن اگر وہ فلمی رموز سیکھنا چاہتے ہیں کہ حساس موضوع پر فلم کیسے بنائی جاتی ہے تو پھر ان کے لیے مفت مشورہ ہے کہ وہ رواں برس ہی ریلیز ہونے والی شیام بینگل کی فلم ’مجیب-دی میکنگ آف نیشن‘ دیکھ لیں۔ ہرچند کہ اس فلم میں بھی حقائق اور تکنیک کے نقص ہیں لیکن پھر بھی اس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ دشمن کیسے حساس موضوع کو برت رہا ہے، پہلے آپ یہ سیکھیں پھر اپنا ہنر آزمائیں۔
اپریل اور مئی کے مہینوں میں کوئی نئی اردو فلم ریلیز نہیں ہوئی لیکن پھر سال کے وسط تک آتے آتے جون میں واحد اردو فلم ’ککڑی‘ ریلیز ہوئی جس کی کارکردگی باکس آفس پر مایوس کُن رہی۔ ماضی میں اس فلم کے اہم موضوع کی وجہ سے اس سے بہت ساری توقعات وابستہ تھیں مگر یہ فلم بینوں کی امیدوں پر پوری نہ اترسکی۔
آدھے سال کی فلمی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ اب جو بچی کچی فلمیں تھیں وہ فلم سازوں نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں کہ انہیں عیدالاضحی پر ریلیز کریں گے۔ لہٰذا جون کے مہینے میں پھر ایک ساتھ 6 اردو فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں تین ہدایت کاروں، ندیم بیگ، مرینہ خان، نبیل قریشی کی مشترکہ کاوش فلم ’تیری میری کہانیاں‘ ریلیز ہوئی۔ باکس آفس کا میدان بھی اسی فلم کے سررہا۔
اس موقع پر باقی 5 فلموں میں ہدایت کار عزیر ظہیر خان کی اینی میٹڈ فلم ’اللہ یار اینڈ ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ‘، ہدایت کار رانا کامران کی ’وی آئی پی‘، ہدایت کار سراج السالکین کی ’مداری‘، ہدایت کار عیسیٰ خان کی ’بے بی لیشیئس‘ اور ہدایت کار سلیم داد کی ’آر پار‘ شامل ہیں۔ اس موقع پر اگر کسی فلم کو مکمل تخلیقی اور معیاری فلم کہا جائے تو وہ ’اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ‘ تھی جو پاکستان کی پہلی اینی میٹڈ فیچر اور اسٹریو اسکوپک تھری ڈی فلم بھی ہے۔
بقیہ نصف سال میں جو اردو فلمیں پاکستانی سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں ان میں جون، سرکٹا انسان، تیرہ، ان فلیمز، کمبیٹیواُو، ڈھائی چال، گنجل اور چکڑ شامل ہیں۔ ان فلموں میں سے ہدایت کار سعید رضوی کی فلم ’سر کٹا انسان‘ اپنے وقت کی ایک جدید فلم تھی جسے اس سال دوبارہ نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ بھی ایک اچھا طریقہ ہے کہ ماضی کی بہترین فلموں کو دوبارہ سینما گھروں کی زینت بنایا جائے کیونکہ ایسی پرانی فلمیں آج بھی نئی بننے والی کئی فلموں سے بہتر ہیں۔
مذکورہ فلموں میں پاکستانی نژاد کینیڈین فلم ساز کی فلم ’ان فلیمز‘ کو مختلف بین الاقوامی فلمی میلوں میں کافی توجہ ملی جس میں فرانس کا فلمی میلہ ’کانز فلم فیسٹیول‘ اور سعودی عرب میں نیا شروع ہونے والا فلمی میلہ ’ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ شامل ہیں۔
بین الاقوامی فلمی میلوں کے لیے بنائی جانے والی پاکستانی فلموں کو موضوعات کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ اس تناظر میں بنائی جانے والی فلموں کی اکثریت متنازعہ اور غیرحقیقی موضوعات کا انتخاب کرتی ہے جس کا مقصد ان فلمی میلوں میں توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کاش ہمارے فلم ساز ایران یا بھارت کی طرح سیکھ لیں کہ بہتر اور مثبت موضوعات پر بھی فلمیں بناکر عالمی فلمی برادری کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ بہرحال اس سال عالمی فلمی میلوں کی توجہ حاصل کرنے والی فلم ’ان فلیمز‘ موضوع کے اعتبار سے گزشتہ برسوں کی فلموں سے قدرے بہتر فلم تھی۔
اسی سال سرمد کھوسٹ کی ایک فلم ’زندگی تماشا‘ بھی فلم ساز نے یوٹیوب پر یہ کہہ کر ریلیز کی کہ اس فلم کو غیر ضروری طور پر متنازع بنایا گیا جبکہ یہ ایک غیر متنازع فلم تھی۔ یہ فلم دیکھ کر اس کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ کی رائے درست محسوس ہوئی۔
اس سال فلم نویس اور ہدایت کار پرویز کلیم کی پنجابی فلم ’رنگ عشقے دا‘ سے فلمی سال کی ابتدا ہوئی۔ جنوری کے دوسرے ہفتے میں یہ فلم ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد ہدایت کار ابوعلیحہ کی دو پنجابی فلمیں ’شاٹ کٹ‘ اور ’سپر پنجابی‘ ریلیز ہوئیں۔ اس سال کی آخری پاکستانی پنجابی فلم ہدایت کار شاہد رانا کی فلم ’لاہور قلندر‘ تھی جو عید الفطر پر ریلیز ہوئی تھی جبکہ بلال لاشاری کی پنجابی فلم ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘ کو اس سال دوبارہ سینما گھروں میں پیش کیا گیا جس نے پاکستانی سینما کی تاریخ کے نئے ریکارڈز قائم کیے ہیں۔
پاکستان میں اب ایسی بھارتی پنجابی فلمیں بھی نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہیں جن میں پاکستانی فنکاروں نے کام کیا ہے۔ اس سال جو بھارتی پنجابی فلمیں پاکستان میں ریلیز ہوئیں وہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 ہیں جن میں سے ہدایت کار سمیپ کانگ کی فلم ’کیری آن جٹا-تھری‘ کو پاکستان میں بھی پسند کیا گیا اور زیادہ تر بھارتی پنجابی فلموں میں پاکستانی فنکار شامل رہے ہیں۔ اس میں پاکستانی کامیڈین اور اداکار ناصر چنیوٹی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بھارتی پنجابی فلموں میں کام کرچکے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم بھارتی پنجابی فلم ’اینی ہاؤ مٹی پاؤ‘ بھی تھی جس کے ہدایت کار جنجوت سنگھ ہیں۔ اس فلم میں ہمارے پاکستانی کامیڈین اکرم اداس نے بھی کام کیا ہے۔ پاکستان میں دیگر زبانوں میں بننے والی فلموں میں پشتو فلموں کی ریلیز کا تناسب بھی یہی ہے۔ البتہ سندھی، بلوچی اور دیگر زبانوں کی فلمیں بننے کا کوئی تسلسل نہیں ہے۔ شرح تناسب بھی انتہائی کم ہے لہٰذا اس درجہ بندی میں وہ فلمیں شامل نہیں ہیں۔
ہولی ووڈ اور یورپی فلمی صنعتوں میں بننے والی تمام فلمیں تو پاکستان میں ریلیز نہیں کی جاتیں لیکن جو منتخب فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں، ان میں سرِفہرست فاسٹ ایکس، جان وِک چیپٹر فور، سپر ماریو برادرز، ایول ڈیڈ رائز، انڈیانا جونز اینڈ دی ڈائل آف ڈیسٹنی، مشن امپاسبل ڈیڈ ریکیننگ پارٹ ون، باربی، ایکسپینڈیبلز فور، ایکولائزر تھری، اوپن ہائیمر، اے ہانٹنگ اِن وینس، کلرز آف دی فلاورمون اور نپولین سمیت دیگر ہولی ووڈ فلمیں شامل ہیں۔
اس سال ریلیز ہونے والی ہولی ووڈ کی اکثر فلمیں وہ تھیں جو فرنچائزز کا حصہ تھیں۔ ان میں بڑے بڑے فلم ساز اداکاروں کی فلمیں شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس نوعیت کی فلموں کی اکثریت نے باکس آفس پر بہت زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن مشہور ہونے کی وجہ سے انہوں نے توجہ ضرور حاصل کی جس کی روشن مثال ٹام کروز کی فلم ’مشن امپاسبل ڈیڈ ریکیننگ، پارٹ ون‘ ہے۔ جس قدر اس فلم سے توقع تھی وہ اس طرح کامیاب نہ ہوسکی لیکن فلم بینوں میں یہ فلم کافی زیرِبحث رہی۔
اسی طرح جب دوسری طرف آن لائن اسٹریمنگ پورٹل کی کارکردگی دیکھی جائے تو کرس ہیمس ورتھ کی فلم ’ایکسٹریکشن ٹو‘ پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں میں سے ایک ہے۔
اسی طرح دوسری طرف لینارڈو ڈی کیپریو جیسے معروف اداکار کی فلم ’کلرز آف دی فلاورمون‘ کو بہت زیادہ توجہ نہیں ملی جبکہ وہ ایک اچھی اور سنجیدہ فلم تھی۔ البتہ امریکی ایٹمی سائنسدان کی زندگی پر بننے والی سوانحی فلم ’اوپن ہائیمر‘ کو بہت توجہ ملی۔ اس فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر نولن تھے لیکن باکس آفس پر اسی فلم کے ساتھ ریلیز ہونے والی فلم ’باربی‘ کو کرسٹوفر نولن کی فلم پر برتری حاصل رہی۔ مجموعی طور پر پاکستان میں 100 کے لگ بھگ انگریزی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے چند کا احوال ہم نے بیان کیا۔
ان فلموں کے علاوہ ہمارے ہاں اس بار سینما گھروں میں کچھ دیگر غیر ملکی فلمیں بھی لگائی گئیں جن میں کچھ فلمیں، چینی، کورین اور عربی زبانوں میں بنائی گئی ہیں۔ ان میں سرِفہرست فلم ’وُوئے‘ تھی جو مصر کی عربی فلم تھی۔ اس فلم کو پاکستان میں بھی ریلیز کیاگیا لیکن یہ فلم بینوں کی زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکی جبکہ یہ ایک اچھی معیاری کہانی پر بنائی گئی فلم تھی اس میں مصر کی سپر اسٹار اداکارہ ’نیلی کریم‘ نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
پاکستان میں غیر ملکی فلموں کو بھی تسلسل کے ساتھ نمائش کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔ ایرانی، چینی، جاپانی، یورپی، امریکی اور لاطینی امریکی فلموں سمیت افریقی فلموں کو بھی منتخب کرکے انہیں پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کیا جانا چاہیے تاکہ ہمارے ہاں پورا سال مختلف فلموں کی نمائش جاری رہے اور سینما گھروں کی رونق قائم رہے۔ اس سے مقامی تھیٹرز کی صنعت پھلے پھولے گی، لوگوں کو روزگار اور حکومت پاکستان کو ٹیکس ملے گا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلمیں بھی بنتی رہیں اور نمائش کے لیے پیش کی جاتی رہیں تو بتدریج ہمارا سینما اپنے قدموں پر کھڑا ہوسکے گا۔ پاکستانی فلم سازوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ رواں برس سب سے زیادہ جن فلموں کو گوگل پر سرچ کیا گیا ان میں کوئی پاکستانی فلم شامل نہیں ہے۔
اس لیے صرف تن تنہا پاکستانی فلموں کے سہارے سینما گھروں کی رونق واپس لانا ممکن نہیں ہے کیونکہ سینما گھروں میں فلموں کی نمائش کا تسلسل ہی فلمی صنعت کی بقا کو دوام دیتا ہے ورنہ بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال،
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔