توشہ خانہ کیس میں عمران خان کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرلیا۔
مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر عرفان بھولا اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔
نیب کی جانب سے 3 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، تاہم عدالت نے نیب کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سابق چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دینے کا حکم سنایا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت پیش کیا گیا تھا۔
یہ کیس بوگس، سیاسی انتقام پر بنایا گیا ہے، بیرسٹر گوہر علی
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا ٹاک کرتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں سابق چیئرمین کا جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا ہے، یہ کیس بوگس ہے اور سیاسی انتقام پر بنایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی پر مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمپرومائز ہو، ہماری پارٹی نے فری اینڈ فیئر الیکشن کے لیے اپنی دو حکومتیں ختم کروائیں، قومی اسمبلی سے استعفی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری استدعا ہے کہ آپ یہ یقین دہانی کروائیں کہ ریٹرننگ افسران (آر اوز) صاف اور شفاف الیکشن کرائیں گے، ہم اس فیصلہ سے مطمئن نہیں ہیں، ہم چاہتے تھے، سپریم کورٹ آر اوز عدلیہ سے رکھوا دیتی۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارے ورکرز کو جیلوں میں بار بار نظر بند کرنے کے معاملہ کو بھی دیکھنا چاہیے ، پی ٹی آئی واحد جماعت ہے، جو چاہتی ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچایا جائے، اگر آپ پٹیشنرز کو نوٹس جاری کرنا شروع کردیں گے تو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 8 فروری کو الیکشن کروانے کا کہہ کر اچھا اقدام کیا، ہمیں آج بھی کنونشن اور اجلاسوں کی اجازت نہیں ہے، یہ عوام کا حق ہے کہ وہ کس کو چننا چاہتے ہیں، ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہمیں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، ہمیں جن کیسسز میں نقصان ہوا، وہ اس لیے ہوا کہ وہ سنے نہیں جا رہے، پی ٹی آئی الیکشن کا کبھی بائیکاٹ نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اپنے انتخابی نشان سے الیکشن لڑیں، الیکشن کمیشن نے شیڈول کے بعد لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی، ہماری تیاری مکمل ہے، جتنی مشکلات میں ہم مہم چلا رہے ہیں اگر لیول پلینگ فیلڈ ملے تو دو تہائی اکثریت ہماری ہو گی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھہ نے کہا کہ نیب نے مزید 3 دن کے ریمانڈ کی استدعا کی تھی، سابق چیئرمین پی ٹی آئی نیب کے سامنے پیش ہو کر تمام سوالوں کے جواب دے چکے ہیں، عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق چیئرمین نے 8 فروری کے الیکشن کو خوش آئند قرار دیا ہے، یہ افواہیں غلط ہیں کہ پی ٹی آئی الیکشن میں تاخیر کروانا چاہتی ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ پچھلے 2 سال سے الیکشن صرف پی ٹی آئی مانگ رہی ہے، 30 اپریل کی تاریخ دی گئی تھی جسے طاقتور لوگوں اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے 8 اکتوبر کر دیا تھا، ہمارے خلاف 9 مئی کو ڈرامہ رچایا گیا، 8 اکتوبر کی تاریخ سن کر ہمارے کان پک گئے تھے، 8 فروری کی تاریخ ہماری پٹیشن پر آئی، ہم کہتے ہیں فری اینڈ فیئر الیکشن کرائیں۔
یاد رہے کہ توشہ خانہ کیس میں سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو تین سال کی سزا کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 اگست کو سابق وزیراعظم کی 5 سال کے لیے نااہلی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا۔
8 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان نے سابق وزیراعظم عمران خان کی پانچ سال کے لیے نااہلی کے خلاف درخواست پانچ رکنی لارجر بینچ کو بھجوا دی تھی۔
اس سے ایک روز قبل 7 دسمبر کو سابق چیئرمن پی ٹی آئی عمران خان نے 5 سال کی نااہلی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 8 اگست 2023 کو 5 سال کے لیے نااہل کردیا، الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کو انتخابات سے باہر کرنے کے لیے جلد بازی میں غیر قانونی اقدام کیا۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا گیا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس وقت کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔