پاکستان

غداری سے متعلق دفعہ 124(اے) کے خاتمے کا ’گمشدہ‘ بل منظور

بل سیکریٹریٹ میں کہیں کھو گیا تھا، اس کا مقصد نو آبادیاتی طرز حکومت میں تبدیلی ہے، بغاوت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، سینیٹر رضا ربانی
|

سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 (اے) کو ختم کرنے کا ’گمشدگی کے بعد ملنے والا‘ بل منظور کر لیا۔

سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں کرمنل لا ترمیمی بل 2023 بھی متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، بل سینیٹر فوزیہ ارشد کی جانب سے متعارف کیا گیا تھا۔

اجلاس میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل 2023 زیر غور آیا، قائمہ کمیٹی داخلہ نے آئین کا آرٹیکل 124-اے ختم کرنے کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا، بل سینیٹر میاں رضا ربانی کی جانب سے متعارف کیا گیا تھا۔

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 124 (اے) کے مطابق جو کوئی بھی شخص زبانی یا تحریر کے ذریعے یا دکھائی دینے والے خاکے کے ذریعے یا بصورت دیگر وفاق یا صوبائی حکومت کو جو بذریعہ قانون قائم کی گئی ہو، معرض نفرت یا حقارت میں لائے یا لانے کی کوشش کرے یا اس سے انحراف کرے یا اس سے انحراف اطاعت پر اکسائے یا اکسانے کی کوشش کرے تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا ایسی قید کی سزا دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جاسکتا ہے یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہ بل سیکریٹریٹ میں کہیں کھو گیا تھا، بل کا مقصد نو آبادیاتی طرز حکومت میں تبدیلی ہے، آئین میں 124-اے کی کوئی ضرورت نہیں رہی، یہ آرٹیکل نو آبادیاتی دور کا ہے، بغاوت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے اسے معطل کیا ہے، حکام وزارت قانون و انصاف نے بتایا کہ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل فائل کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اپیل کا فیصلہ آنے تک بل مؤخر کیا جائے۔

رضا ربانی نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالتی کارروائی کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، کمیٹی نے بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

اجلاس میں درختوں کی کٹائی کی ممانعت کا ترمیمی بل 2023 زیر غور آیا، بل سینیٹر پلوشہ کی جانب سے پیش کیا گیا، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ درختوں کی کٹائی پر جرمانے میں اضافہ اور درختوں کو تحفظ دینے کی ترمیم کی گئی ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نمائندے کے نہ موجود ہونے پر سینیٹر شیری رحمٰن نے اعتراض کیا۔

چیئرمین سی ڈی اے انوار الحق نے بتایا کہ ایونیو میں درخت آتاہے تو اسے ہٹا دیا جاتاہے، سی ڈی اے کا ماحولیاتی ڈائریکٹوریٹ موجود ہے، بڑے درختوں کی کٹائی ہماری مجبوری ہے، چھوٹے درختوں کو ٹرانسپلانٹ کیا جاتاہے۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ اس کا وزارت موسمیاتی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں، وزارت موسمیاتی تبدیلی کا کوئی نمائندہ یہاں موجود ہونا چاہیے۔

چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ مضحکہ خیز کا لفظ استعمال کرنے پر اعتراض کرتا ہوں، آئی جے پی، بارہ کہو میں نئے درخت لگائے گئے ہیں، شیری رحمٰن نے کہا کہ کوئی درخت کاٹنا ضروری نہیں ہوتا، دنیا میں درختوں کی کٹائی پر احتجاج ہو رہے ہیں، اپنے آپ کو ایجوکیٹ کریں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل میں صرف جرمانوں میں اضافہ کیا گیا ہے، حکام وزارت قانون و انصاف نے کہا کہ بل میں کچھ اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو قانونی اصطلاحات نہیں ہیں، بل کو دوبارہ متعارف کرانے کے لیے اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ مارچ میں دیے گئے ایک فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 (اے) کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا، اس دفعہ کو غداری کا قانون کہا جاتا ہے جو بغاوت کرنے یا حکومت کے خلاف ’عدم اعتماد‘ پھیلانے سے متعلق ہے۔

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 124 (اے) کے مطابق جو کوئی بھی شخص زبانی یا تحریر کے ذریعے یا دکھائی دینے والے خاکے کے ذریعے یا بصورت دیگر وفاق یا صوبائی حکومت کو جو بذریعہ قانون قائم کی گئی ہو، معرض نفرت یا حقارت میں لائے یا لانے کی کوشش کرے یا اس سے انحراف کرے یا اس سے انحراف اطاعت پر اکسائے یا اکسانے کی کوشش کرے تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا ایسی قید کی سزا دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جاسکتا ہے یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے یہ مختصر فیصلہ بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی ایک جیسی درخواستوں کے جواب میں سنایا تھا۔

ایک شہری ہارون فاروق کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں میں سے ایک جو دیگر درخواستوں سے مماثلت رکھتی تھی، جس میں عدالت سے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 (اے) کو آئین کے آرٹیکل 8 کے مطابق اختیارات سے تجاوز قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی اور درخواست کی گئی تھی کہ یہ آئین کے آرٹیکل 9، 14، 15، 16، 17 اور 19، 19 (اے) کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق سے بھی متصادم ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ بغاوت کا قانون 1860 میں بنایا گیا جو انگریز دور کی نشانی ہے، بغاوت کا قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، کسی کے کہنے پر بھی مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے، بغاوت کے قانون کو اب بھی دفعہ 124 (اے) کے ذریعے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

درخواست میں شہباز گل کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے، اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے تعلق رکھنے والے محسن داوڑ، علی وزیر سمیت دیگر قانون سازوں کا ذکر کیا گیا، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں بھی غداری کے الزامات کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ اس کے علاوہ مختلف نامور صحافی ارشد شریف، خاور گھمن، عدیل راجا اور صدف عبدالجبار کو بغاوت کے الزامات کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جاوید ہاشمی کو بھی غداری کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنائی گئی۔