’اور زمین کا رنگ بدل گیا‘، سقوط ڈھاکا کے متاثرین کی المناک یادداشتیں
ہماری قومی ڈائری میں 16 دسمبر کا ورق سرخ وسیاہ رنگ سے داغدار ہے۔ پاکستان کے اس نقشے پر لکیریں کھنچی ہیں جس کے حصول کے لیے بحیرہ عرب سے لے کرخلیج بنگال تک کروڑوں عوام ایک قائد کے پیچھے متحد ہوگئے تھے اور انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط سے آزادی حاصل کرکے دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک تشکیل دے دیا۔ برصغیر کے مغربی اورمشرقی حصوں پر مشتمل پاکستان 1947ء میں وجود میں آکر جدید دنیا کا معجزہ قرار پایا لیکن 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا اور محض دو دہائیوں میں یہ نقشہ تبدیل ہوگیا۔
عام پاکستانی کے لیے سقوط ڈھاکا تاریخ کا ایک المناک دن ہےجو شکست خوردگی کا احساس لیے آتا ہے، دانشور و قلمکار اس سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سبق آموز قرار دیتے ہیں لیکن یہ سبق ’خواص‘ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں تاہم کروڑوں انسانوں کے لیے یہ تاریخ، آنکھوں میں منجمد لہو کی طرح ٹھہر گئی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس سانحے کو رونما ہوتے دیکھا، کشت وخون، لاشوں سے اٹے گھر، گلیاں اور بازار دیکھے، اپنے پیاروں کو کھویا، پہاڑ جیسے غم والم سینوں پر دھرے، دوبارہ ہجرت کی انہیں 16 دسمبر، سال کے ہر دن یاد رہتا ہے۔ کراچی میں مقیم ایسی ہی چند شخصیات کے جذبات و تاثرات نذر قارئین ہیں۔
سید اعجاز احمدایک نجی کمپنی سے وابستہ ہیں۔ ان کے والد سید افتخار احمد پاکستان آرمی میں تھے اور 1967ء سے لےکر 1971ء تک اپنے خاندان کے ہمراہ ڈھاکا میں تعینات تھے۔ اعجاز احمد نے اپنے والد کے متعلق بتایا کہ وہ برٹش آرمی میں تھے، دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر رہ چکے تھے۔ برٹش آرمی میں ’برما اسٹار‘ اور پاکستان آرمی میں 1965ء کی جنگ میں’ تمغہ جنگ’ حاصل کرچکے تھے۔ 1947ء میں بہار سے ہجرت کرکے پنڈی آئے اور پاکستان آرمی میں ملٹری انجینیئرنگ سروس جوائن کی۔
اعجاز صاحب بتاتے ہیں کہ والد کی سرگودھا میں پوسٹنگ ہوئی تھی۔ 1967ء میں انہیں ڈھاکا میں پوسٹنگ ملی۔ تب مشرقی پاکستان میں شورش کا آغاز ہوچکا تھا اور عموماً لوگ وہاں جانا نہیں چاہتے تھے مگر والد صاحب نے یہاں نہ جانے کا کوئی بہانہ نہیں بنایا۔ سیداعجاز احمد اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ
’میں ہائی اسکول میں تھا جب ہم ڈھاکا پہنچے، ہماری رہائش ڈھاکا چھاؤنی میں تھی۔ میں گورنمنٹ ڈھاکا موتی جھیل ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، یہ صبح میں اردو/انگلش میڈیم اور دوپہر میں بنگالی میڈیم تھا۔ ہیڈ ماسٹر بنگالی تھے۔ وہ بہت اچھے تھے۔ شروع میں وہاں اردو سے نفرت نہیں تھی مگر جب حالات خراب ہونے شروع ہوئے تو ہم نے اسکول میں بھی یہ تبدیلی دیکھی کہ جب حاضری پکاری جاتی تھی تو ہم ’یس سر‘ کہتے، پہلے بنگالی طالب علم بھی اسی طرح انگلش میں جواب دیتے تھے مگر پھر انہوں نے بنگلہ زبان میں ’حاضر ہوں‘ کہنا شروع کردیا‘۔
اعجاز احمد کے مطابق اکتوبر 1969ء میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’دوپہر کا وقت تھا، میں ’فارم گیٹ‘(مارکیٹ کا نام) کسی کام سے گیا تھا جب میں بس سے اترا تو دیکھا ہنگامہ آرائی ہورہی تھی۔ بنگالی نوجوان، شلوار قمیض، پشاوری چپل پہنے ہوئے لوگوں کو مار رہے تھے، میں جیسے ہی بس سے اترا تو میرے سر پر ایک ڈنڈا پڑا، یہاں کنٹونمنٹ کے کچھ فوجی بھی موجود تھے جو سادہ لباس میں بازار وغیرہ جایا کرتے تھے۔ شلوار قمیض دیکھ کر سمجھا جاتا تھا یہ پنجاب، مغربی پاکستان سے ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مجھے اور دیگر لوگوں کو بھی جب مارا گیا تو ہم لوگ کنٹونمنٹ کی طرف بھاگے، راستے میں ایک تھانہ تھا، ہم مشتعل ہجوم سے جان بچانے کےلیے جب یہاں داخل ہونے لگے تو پولیس والوں نے گیٹ بندکردیے۔ خیر ہم نے بڑی مشکل سے کنٹونمنٹ پہنچ کر جان بچائی۔ اس کے بعد گھر سے باہر نکلتے ہوئے میں پینٹ شرٹ ہی پہنتا تھا۔
’میرا نو خیز دماغ ان واقعات پر سوچتا، اپنے والد اور اردگردکے لوگوں سے معلوم کرتا، میرے مشاہدے کے مطابق بنگالیوں میں مغربی پاکستان کے خلاف جذبات کی مختلف وجوہات تھیں۔ بنگالیوں میں یہ احساس نمایاں تھا کہ ہم اکثریت میں ہیں اس کے باوجود مغربی پاکستان ہم پر بالا دستی رکھتا ہے۔ ہم وہاں لوگوں سے یہ بھی سنتے تھے کہ 1965ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں مؤثر دفاعی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ وہ کہتے تھے ہم نے جنگ کے سترہ دن خوف و دہشت کے عالم میں گزارے۔ اس جنگ کے دوران یہ پالیسی اپنائی گئی تھی کہ مغربی پاکستان کے محاذ سے پورے پاکستان کا دفاع کیا جائے گا‘۔
اعجاز احمد نے چھاؤنی کے حالات کے متعلق بتایا کہ ’ڈھاکا چھاؤنی جہاں ہمارا قیام تھا اگرچہ چار دیواری میں محفوظ تھی لیکن مقامی لوگوں نے ہماری رسد کاٹ دی تھی۔ فارم گیٹ پر چوکی بنادی گئی جہاں سے چیکنگ ہوتی تھی کہ اشیائے خور و نوش چھاؤنی میں نہ جاسکیں۔ ان دنوں ہمیں گوشت، چکن وغیرہ بالکل نہیں ملتا تھا، البتہ آرمی کا راشن ہوتا ہے اس سے دال روٹی پر گزارہ تھا۔
’ڈھاکا ایئرپورٹ جو کنٹونمنٹ کے اندر تھا وہاں 25 مارچ کے آپریشن ’سرچ لائٹ‘ کے بعد مغربی پاکستان جانے والوں کی لائینں لگی ہوتی تھیں، لوگ ایئرپورٹ پر ہی سوتے تھے کہ جیسے ہی ٹکٹ ملے پرواز کر جائیں۔ ہم ان مسافروں کے لیے بھی دال روٹی، سالن وغیرہ بنا کر ایئرپورٹ پر لے جاتے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ کئی کاروباری لوگوں نے اپنی گاڑیاں وہیں ایئرپورٹ پر چھوڑیں اور مغربی پاکستان چلے گئے‘۔
ڈھاکا سے واپسی سے متعلق بات کرتے ہوئے اعجاز احمد نے بتایا کہ 25 مارچ کے آپریشن سے پہلےکنٹونمنٹ میں غیر معمولی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ رات دس بجے سے بہت سی گاڑیاں لائن میں کھڑی تھیں، ان کے نکلنے کے بعد گھن گرج کی آوازیں شروع ہوگئیں۔ اسی آپریشن کے دوران شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا اور بعد ازاں مغربی پاکستان بھجوا دیا گیا۔ تاہم معلوم یہ ہوا کہ اس سے پہلے انہیں چند دن آدم جی کینٹ کالج میں رکھا گیا تھا۔ میں نے اسی کالج میں داخلہ لیا تھا، یہاں مشاہد حسین سید (سینیٹر) بھی پڑھتے تھے، وہ ہمارے سینئر تھے، ان کے والد کرنل تھے اور ان کی بھی ڈھاکا میں پوسٹنگ تھی۔
مجیب الرحمٰن کی گرفتاری کے بعد حالات بہت خراب ہوگئے۔ چھاؤنیوں میں کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے گھر والوں کو مغربی پاکستان بھیج دیں۔ ہم لوگ بھی اپریل میں پاکستان آگئے لیکن میرے والد اور والدہ وہیں تھے’۔
سید اعجاز احمد نے اپنے والد کا بھارت کی قید سے بچنے کا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ جب ڈھاکا کا سقوط ہوا تو کنٹونمنٹ میں بھارتی فوج آگئی۔ چونکہ ان کے والد برٹش آرمی میں رہ چکے تھے اس لیے وہ جانتے تھے کہ جنگی قیدیوں سے کیا سلوک ہوتا ہے اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ قید ہونے کی بجائے وہاں سے نکل جائیں۔ انہوں نے اپنا حلیہ تبدیل کرلیا، داڑھی بڑھا لی، وزن حالات کی وجہ سے پہلے ہی کم ہوگیا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکلے۔
وہ میرپور میں اردو بولنے والوں کی آبادی میں پہنچے۔ راستے میں پکڑے بھی گئے، وہاں کچھ پیسے دے کر نکلے۔ میرپور سے کسی طرح سرحد پار کرکے کلکتہ پہنچے، وہاں سے نیپال گئے اور پاکستانی سفارت خانے میں پہنچ گئے۔ یہاں سے پھر ان کو کوشش کرکے پاکستان لایا گیا۔ وہ 1973ء میں یہاں پہنچے۔
سید اعجاز احمد بتاتے ہیں کہ ’والدین ایئر پورٹ پر پہنچے تو والدہ کو میں نے پہچان لیا لیکن والد صاحب کی صحت اتنی گر چکی تھی کہ انہیں پہچان نہیں پایا اور اِدھر اُدھر ڈھونڈنے لگا‘۔
سید اعجاز احمد کے والد پاکستان واپس آنے کے بعد دوبارہ فوج سے منسلک ہوئے، 1976ء میں وہ پاک آرمی کی طرف سے سعودی عرب میں تعینات ہوئے۔ 1982ء میں ریٹائر ہوئے۔
تمغہ امتیاز کی حامل، معروف، شاعرہ، ادیبہ اور محقق ڈاکٹر فاطمہ حسن، اپنے لڑکپن سے لے کر نوجوانی تک ڈھاکا میں رہائش پذیر تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ سقوط ڈھاکا سے متاثر اپنے خاندان کے ہمراہ 1972ء میں کراچی پہنچیں۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ
’میری والدہ کا خاندان مغربی بنگال کے سرحدی علاقے ’ہلی‘ میں مقیم تھا۔ نانا چمڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ بنیادی طور پر میرے ننھیال کا تعلق یو پی غازی پور سے ہے۔ میرے نانا سید ظفر احمد کا گاؤں ابھی بھی وہیں ہے جہاں ان کی زمینیں تھیں۔ میرے سب ماموں کلکتے سے پڑھے، وہ بنگالی لکھنے پڑھنے پر بنگالیوں کی طرح ہی عبور رکھتے تھے۔ نانا کا کاروبار بہت اچھا تھا۔ بنگال میں نانا نے اپنے اور ماموں سید آغا علی حیدر کے نام سے اسکول اور ہاسٹل بنوائے۔ میرے ماموں بیرسٹر سید اشتیاق احمد جو سقوط ڈھاکا کے بعد بنگال میں رہ گئے تھے، وہ بنگلہ دیش کے اٹارنی جنرل بنے اور بنگلہ دیش کا آئین بھی انہوں نے بنایا‘۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے خاندان کی کراچی سے ڈھاکا ہجرت کے بارے میں بتایا کہ ’جب پاکستان بنا تو بڑے ماموں سید آغا علی حیدر، بنگال سول سروسز میں تھے انہوں نے مغربی بنگال سے ڈھاکا ہجرت کی۔ یہ چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں تھے۔ میری امی کی شادی اپنے کزن، میرے والد سید تہذیب الحسن سے ہوئی۔ والد زمانہ طالب علمی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش آرمی میں چلے گئے تھے۔ پاکستان بنا تو انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور کراچی آگئے۔
’میری پیدائش، 1953ء میں کراچی کے ملیر کینٹ میں ہوئی۔ میری دو بہنیں اور یہیں پیدا ہوئیں۔ امی کی پندرہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی۔ ان کا سارا خاندان ڈھاکا میں تھا، وہ یہاں اکیلے رہتے ہوئے پریشان تھیں، پھر ابّا نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور ہم 1960ء میں ڈھاکا چلے گئے۔
ڈھاکا میں ہم عظیم پور میں گورنمنٹ آفیسرز کے فلیٹس میں رہتے تھے۔ میرے دونوں ماموں گورنمنٹ آفیسرز تھے، تو ان کے ساتھ ہی رہے۔ ڈھاکا میں مجھے پلاسی بیرک اسکول میں تیسری جماعت میں داخلہ مل گیا۔
محمد پور کی مہاجر کالونی میں ابّا کوگھر الاٹ ہوگیا تو ہم وہاں شفٹ ہوئے اور یہاں محمد پور گرلز ہائی اسکول میں آگئی جہاں سے میٹرک کیا۔ اسکول میں اردو، فارسی اور لازمی مضمون کے طور پر بنگالی پڑھائی جاتی تھی۔ اسکول کے زمانے تک میں نے بنگالی اور غیر بنگالی کے مابین تعصب نہیں دیکھا۔ میں نے ایڈن گرلز کالج میں داخلہ لیا تو اس وقت (1960ء کی دہائی کے اختتام پر) حالات خراب ہورہے تھے۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بتایا کہ ’میرا ڈھاکا یونیورسٹی میں نیا نیا ایڈمیشن ہوا تھا۔ 7 مارچ کو میں ڈھاکا یونیورسٹی میں تھی جب ہمیں کہا گیا کہ حالات خراب ہو رہے ہیں سب گھروں کو چلے جائیں۔ اس دن جو میں یونیورسٹی سے نکلی ہوں تو دوبارہ نہ جاسکی۔ اس کے بعد سے وہاں ایک خانہ جنگی کا ماحول ہوگیا تھا۔ مشتعل ہجوم کی نفسیات بہت تباہ کن ہوتی ہے، مکتی باہنی کو بھارت کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ہمارے خاندان کے بیشتر افراد اور دیگر غیر بنگالی، اردو بولنے والے لوگ وہاں سے نکل رہے تھے‘۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے مغربی پاکستان میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے بتایا کہ ’مشرقی بنگال سے بیشتر غیر بنگالی خاندان حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہجرت کرگئے تھے مگر اکثریت کو امید تھی کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں۔ ہمارا خاندان بھی ان میں سے ایک تھا۔ بدقسمی سے ایسا نہ ہوا اور ہمیں اپنی آنکھوں سے بدترین قتل و غارت دیکھنا پڑی۔
’ہمارے قریبی رشتے دار رانگا ماٹی، کپتائی میں رہائش پذیر تھے، ان دونوں میاں بیوی کو ان کے بچوں کے سامنے قتل کردیا گیا۔ بچوں کو بڑی مشکل سے بچا کر لایا گیا۔ رانگا ماٹی کا نام زمین کے لال رنگ کی وجہ سے تھا، یہ مٹی پھر خون سے لال ہوئی۔
’جب ڈھاکا کا سقوط ہوا تو ہم لوگ وہیں تھے، عوام سے یہ خبر چھپائی جارہی تھی۔ میں نے رات کو اپنے ابّا سے کہا بی بی سی ریڈیو کہہ رہا کہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ ابّا کو یقین نہیں آیا کیونکہ پاکستانی ذرائع خبر نہیں دے رہے تھے، یہاں تک کہ لوگوں نے خود انڈین آرمی کو شہر میں دیکھ لیا۔ ہم دیکھتے تھے بھارتی جہاز ہمارے سروں پر سے سست پرواز کرتے گزر رہے ہیں۔ ہمارے بیچارے عوام بلیک آؤٹ کرکے بیٹھ جاتے تھے کہ یہ جہاز گزر جائیں گے، وہ نہیں جانتے تھے ہم ڈھاکا ہار چکے ہیں۔
’محمد پور جہاں ہماری رہائش تھی وہاں پاکستان کی شکست کے بعد قتل وغارت شروع ہوگئی۔ محلے کے سب غیر بنگالی افراد ایک تین منزلہ مکان میں جمع ہوگئے۔ مرد حضرات چھت پر جمع ہوگئے، خواتین کو نیچے رکھا اور نیچے گھر میں بڑے سے کڑاہے میں پانی کھولایا جارہا تھا کہ اگر مکتی باہنی کے لوگ گھس آئے تو ان پر پانی پھینک کر مقابلہ کیا جائے گا۔ پندرہ اور سولہ کی درمیانی ساری رات اسی طرح گزاری۔
’مکتی باہنی کے قتل عام کرنے والے زیادہ تر نوجوان ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ تھے، انہیں ہوسٹلز سے نکالا گیا تھا‘۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے پاکستان آنے کے سفر کے بارے میں بتایا کہ ’بنگلہ دیش سے پھر ہم چھپ کے پاکستان کے لیے نکلے۔ ہوا یہ کہ شیخ مجیب جب یہاں سے رہا ہو کر واپس پہنچے تو انہوں نے میرے ماموں کو جنہوں نے انٹرنیشنل فنانس میں تعلیم حاصل کی ہوئی تھی اور ان کا بہت ان کا نام تھا، ان کو اٹارنی جنرل بنا دیا تھا۔ پھر ماموں نے اس طرح سے کیا کہ انہوں نے اپنے منشی کے ذریعے کسی طرح سے ہمیں بنگلہ دیش کی قومیت دلائی اور اس کے بعد ہمارے پاسپورٹ بن گئے تو پھر اس منشی کے ساتھ ہی ہم ڈھاکا سے چھپ کر نکلے اور یہاں سے ہم کلکتہ پہنچے۔ کلکتہ پہنچ کر ہم نے پھر وہ پاسپورٹ ان کو واپس کر دیے۔ ہمیں بنگلہ دیش کی قومیت مل چکی تھی لیکن ہمارا انتخاب پاکستان تھا۔
’اس کے بعد ہم اپنے گاؤں کاموپور میں ٹھہرے۔ سلسلہ یہ تھا کہ جو بھی کسی طرح سے انڈیا پہنچ جاتا تھا وہ پھر وہاں سے نیپال جاتا تھا اور نیپال سے پھر ایئر فرانس کی فلائٹ آتی تھی برما کے ذریعے اور اس سے پھر وہ پاکستان پہنچتے تھے۔ اب ہمارا نیپال پہنچنا ایک بڑا مرحلہ تھا ہمارے کچھ رشتہ دار ریلوے میں تھے انہوں نے بہت مدد کی اور کسی طرح سے ہمیں نیپال کے بارڈر تک چھوڑ کرگئے۔ جب ہم نیپال پہنچ گئے تو یہاں سے ایئر فرانس کی فلائٹ حاصل کرنا ان دنوں جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
’بہت سے پاکستانی فلائٹ کے منتظر تھے، ایک فلائٹ آتی تھی، لمبی لائن لگتی تھی۔ ہم لوگوں نے بھی ایک کمرہ کرائے پر لیا۔ میں نے اس دوران یہ کیا کہ ایئرپورٹ پر جو ریزرویشن پر خاتون بیٹھتی تھیں ان سے میں روزانہ جاکر معلومات کرتی تھی تو ان سے میری اچھی دوستی ہوگئی۔ انہوں نے مجھے یہ کہا کہ یہاں سے تو لگتا ہے اپ کو بہت ٹائم لگ جائے گا آپ مجھ سے روزانہ معلوم کرتی رہو اگر ہانگ کانگ سے کوئی سیٹ کینسل ہوتی ہے تو میں اپ کی اس میں بکنگ کردوں گی تو پھر حسن اتفاق یہ ہوا کہ تقریباً ایک یا دو ہفتے بعد اتنی سیٹیں جتنی ہمیں چاہیے تھیں کینسل ہوئیں اور ہماری بکنگ ہوئی۔ اس طریقے سے پھر ہم یکم جنوری 1972ء کو بنگلہ دیش سے نکلے اور مارچ میں پاکستان پہنچے‘۔
ڈاکٹرفاطمہ حسن نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا
صغریٰ یونس گھریلو خاتون ہیں، وہ بنگال کے چھوٹے سے علاقے سنتاہار میں رہتی تھیں۔ یہ علاقہ سقوط ڈھاکا کے دوران انسانیت سوز مظالم کا شکار ہوا، مختلف رپورٹس کے مطابق بیس ہزار سے زائد غیربنگالیوں کا قتل عام کیا گیا۔ وہ اپنے خاندان کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’ہماری پیدائش بنگال میں ہوئی لیکن ہم بنگالی نہیں تھے، ہمارے بزرگ پٹنہ کے رہنے والے تھے۔ ہمارے نانا کاروبار کے سلسلے میں بہت پہلے بنگال آگئے تھے، ہماری والدہ کی پیدائش بھی بنگال میں ہوئی۔ والد عبد القیوم ان کے رشتہ دار تھے۔ راج شاہی میں ایک چھوٹا سا شہر تھا ’سنتاہار‘، ہم یہاں رہتے تھے، یہاں اردو بولنے والے بہت کم اور بنگالیوں کی اکثریت تھی۔ ہمارا حویلی نما دس کمروں کا گھر تھا، گھر میں دو ماموں اور ہماری خالائیں سب مل کر رہتے تھے نانا کا ریلوے اسٹیشن پر بہت بڑا اور مشہور ہوٹل تھاجس کا نام ’سوداگر‘ تھا۔
صغریٰ یونس کے مطابق ’1969ء سے ہمارے علاقے میں حالات خراب ہورہے تھے۔ 1971ء میں انتہا ہوگئی، سنتاہار کی بیس پچیس ہزار کی آبادی تھی سب کو قتل کردیا تھا۔ صرف چند لوگ ہی بچ پائے، وہ لڑکیاں جن کی شہر سے باہر شادیاں ہوئی تھیں یا جو لوگ اس دوران وہاں موجود نہیں تھے وہی بچ سکے۔ مکتی باہنی والے غیر بنگالیوں کو ڈھونڈ کر اور گھروں سے نکال کر قتل کر رہے تھے۔ کھلنا، راج شاہی سب جگہ قتل وغارت ہورہی تھی۔
’ہمارا آ نکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ محلے میں ایک خاندان تھا جن کے ایک سو سے زائد افراد تھے سب کو قتل کر کے کنویں میں ڈال دیا ایک بھی زندہ نہیں چھوڑا۔ جب یہ مار دھاڑ شروع ہوئی تو کچھ بنگالی پڑوسی اور ہمارے ہوٹل کے بنگالی ملازم آگئے اور ہمیں کہا کہ یہاں سے نکل جائیں ورنہ آپ سب قتل کردیے جاؤ گے۔ ہمارا گھر علاقے میں سوداگر صاحب کی فیملی کے نام سے مشہور تھا اور یہ چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ انہیں قتل کردیں گے‘۔
صغریٰ یونس بتاتی ہیں کہ ’مکتی باہنی کے لوگوں نے بہت ظلم کیا یہ لوگ منہ پر ڈھاٹے باندھے دیواریں پھاند کر گھروں میں گھستے تھے چھریوں، لوہے کے راڈ اور ڈنڈوں سے لوگوں کو قتل کرتے تھے۔ یہ مرد حضرات کو اٹھا کر لے جاتے تھے، لڑکیوں کو ہراساں کرتے تھے۔
’پڑوسی جب ہمیں گھر سے نکالنے آئے تو ہم صرف تن کے کپڑوں میں گھر کے پچھلے دروازے سے نکلے، چند دن پڑوسیوں نے ہمیں اپنے گھر میں چھپایا پھر ایک گاؤں میں پہنچا دیا۔
’گاؤں تک ہم پیدل چل کرگئے، اس سفر میں ہمارے ساتھ گود کے بچے اور میری بوڑھی نانی بھی شامل تھے۔ یہاں بہت پریشانی کے عالم میں دن گزرے، ہمارے بزرگ ہی نہیں ساتھ دینے والے بنگالی بھی ہمارے حال پر روتے تھے کہ ہمارے خاندان کی عورتوں کا کسی نے پیر تک نہیں دیکھا اور اب ایرے غیرے کے گھروں پر رہنے کو مجبور تھے۔
’ہم دو تین ہفتے وہاں رہے، پھر وہاں پاکستانی فوج پہنچ گئی، وہ جس گھر کا دروازہ کھولتے لاشوں سے اٹا پڑا ہوتا تھا پھر ان لوگوں نے علاقہ خالی کروا کر ہمیں اپنے ٹرک میں راج شاہی پہنچایا‘۔
صغریٰ یونس نے بعد کے حالات کے بارے میں بتایا کہ ’بہت مشکل وقت تھا، ہمارے ابّا کا ان سارے حالات کے دوران ہارٹ فیل ہوکر انتقال ہوگیا تھا، ہمارے عزیز و اقارب بچھڑ گئے تھے۔ پھر ہمیں کیمپ میں بھیج دیا گیا اسی دوران جنگ ہوئی اور پاکستان ہار گیا۔ تب معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش کی حکومت کہہ رہی ہے ان لوگوں کو پاکستان لے جاؤ۔
’لوگوں کو فارم دیے جاتے تھے کہ یہ بھر دو پھر انہیں پاکستان بھیج دیتے تھے۔ گھر میں ہمارے بھائی کو پڑھانے ایک استاد آتے تھے، ان کے بھی پورے خاندان کو ختم کردیا گیا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ کیمپ میں تھے، وہ فارم لے کر ہمارے پاس آئے تو ہمارے بہنوئی نے والدہ سے کہا کہ اماں آپ اس میں نام لکھوا لیں۔ ہم نے فارم میں نام لکھا دیا تو خوش قسمتی سے محصورین کے جو پہلے دو جہاز کراچی آئے اس میں ہمارا نام آگیا اور ہم 1974ء میں پاکستان آگئے۔
’پاکستان آکر بھی بہت تنگی میں گزارا کیا لیکن ہم شکر کرتے ہیں کہ ہم یہاں آگئے کیونکہ وہاں پر جو لوگ رہ گئے ہیں ان کے متعلق پتا چلتا ہے کہ کیمپوں میں وہ کتنی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے بھائی 12سال کے تھے، انہوں نے ملازمت شروع کردی۔ میں نے سلائی کڑھائی شروع کردی تھی۔ یہاں بھی اڑوس پڑوس اور جہاں میرے بھائی ملازمت کرتے تھے انہوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا‘۔
صغریٰ یونس نے گفتگو کے اختتام پر کہا کہ ہم 16 دسمبر 1974ء میں پاکستان آئے تھے، ہمیں اپنا ماضی اس مہینے میں ہی نہیں، ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ پاکستان کے حالات دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ اب یہاں سے کہاں جائیں گے؟
ڈاکٹر فیاض عالم، سندھ میڈیکل کالج کے 1991ء کے گریجویٹ ہیں، اسپتال ایڈمنسٹریشن اور سوشل ورک سے وابستہ ہیں۔ سقوط ڈھاکا کے وقت ان کا خاندان مشرقی پاکستان میں تھا، ڈاکٹر صاحب نے اس کے متعلق ہمیں بتایا کہ ’16 دسمبر 1971ء کو میری عمر 6 سال تھی۔ مجھے اپنے بچپن کی جو باتیں اچھی طرح یاد ہیں وہ بدقسمتی سے جنگ اور تباہی و بربادی اور کشت خون کی یادیں ہیں‘۔
ڈاکٹر فیاض عالم نے اپنی یادیں بتاتے ہوئے کہا کہ ’میرے والد محمود عالم ریلوے میں افسر تھے اور ہماری فیملی سید پور میں رہا کرتی تھی۔ ریلوے کا بہت وسیع و عریض بنگلہ تھا جس کے ساتھ ملازمین کے دو کوارٹر اور کھیل کا میدان بھی تھا۔ وہ محلہ صاحب پاڑہ کہلاتا تھا یعنی آفیسرز کالونی۔
’بڑے بھائی جناح اسکول میں پڑھتے تھے۔ دیگر اردو بولنے والوں کی طرح ہمارے خاندان نے بھی 1970ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دیا تھا۔ سیدپور میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی جن کی ایک بڑی تعداد ریلوے اور دیگر سرکاری محکموں میں ملازمت کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 14 اگست 1971ء کو ہمارے گھر کی چھت پر پاکستان کا بہت بڑا جھنڈا لہرایا گیا تھا۔
’جنگ شروع ہوئی تو گھر کے آس پاس خندقیں کھود لی گئیں، جب ہوائی حملے کی اطلاع دینے کے لیے سائرن بجائے جاتے تو ہم سب ان خندقوں میں چلے جاتے۔بھارتی طیارے نمودار ہوتے اور پانی کی سپلائی کے اونچے مرکزی ٹینک کو بطور خاص نشانہ بناتے تھے۔ بمباری کی آواز اس قدر خوفناک ہوتی کہ ہم سب خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے‘۔
ڈاکٹر فیاض عالم نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ’سید پور میں ائیرپورٹ نہیں تھا۔ جنرل نیازی دورے پر آئے تو ہیلی پیڈ بنوایا گیا۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ رن وے بنانے کے لیے فوجی اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ چند دنوں کے اندر رن وے بنا دیا گیا جس پر جنگی طیارے لینڈ کرسکیں لیکن افسوس کہ اس کی نوبت ہی نہیں آسکی‘۔
انہوں نے سقوط ڈھاکا کے بعد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 16 دسمبر 1971ء کو جب سرنڈر کی خبر ملی تو ہر فرد کی آنکھوں میں آنسو تھے ’میرے ایک بڑے بھائی ایسٹ پاکستان رائفلز میں بھرتی ہوگئے تھے، ان کی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچ پارہی تھی۔ جن علاقوں میں مکتی باہنی نے قتل عام کیا تھا وہاں سے بچے کچھے لوگ سید پور اور دیگر محفوظ علاقوں میں آگئے تھے۔
’ہمارے گھر میں اچانک بہت سے لوگ رہنے لگے تھے۔ ہر فیملی کی اپنی ایک داستان تھی۔ جو واقعات ان لوگوں نے سنائے تھے، وہ ناقابل یقین تھے۔ جس طرح کی درندگی اور سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا اس نے شاید چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے ظالموں کی روحوں کو بھی شرمادیا ہوگا۔
ہر علاقے میں خوراک کی شدید قلت ہوگئی تھی۔ اچھے اچھے گھرانوں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی تھی۔ ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ ابلے ہوئے بھٹے اور شکرقندی بطور خوراک استعمال کیے۔ دکانوں پر چینی سمیت مختلف اشیائے خور و نوش ناپید ہوچکی تھیں۔ میرے بہنوئی زراعت اور مویشی پالنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے ہمارے بنگلے کے باہر دو گائیں پال لی تھیں تاکہ آنے والے خاندانوں کے لیے چائے کے دودھ کا بندوبست ہوسکے۔ انہوں نے بنگلے کے ساتھ والے میدان کو فصلوں کی کاشت کے لیے استعمال کیا خاص طور پر مکئی، شکرقند اور کچھ دیگر فصلوں کے لیے’۔
ڈاکٹر فیاض عالم نے مشرقی پاکستان سے ہجرت کے حوالے سے بتایا کہ ’والد صاحب نے بڑے بھائی اور منجھلے بھائی کو بارڈر پار کرکے ہندوستان جانے کے لیے کہا کیونکہ مکتی باہنی والے بار بار ان کا پوچھتے ہوئے آتے تھے۔ کچھ بنگالیوں نے لوگوں کو ہندوستان کا بارڈر پار کروانے کا کام منظم انداز سے شروع کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کام میں ہندوستانی فوج کے اہلکار اور مکتی باہنی کے لوگوں کا حصہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک دن ہماری والدہ، چھوٹی بہن، چھوٹے بھائی اور ہماری باری بھی آئی والدہ نے اپنا سارا زیور ایک پوٹلی میں رکھا اور ہم بنگالی ایجنٹ کے ساتھ بارڈر کے قریب پہنچ گئے۔
’ایجنٹ نے والدہ سے کچھ بہانہ کرکے زیور کی پوٹلی لے لی، شاید یہ کہا ہوگا کہ بارڈر کے اہلکار چھین لیں گے۔ اس کے بعد وہ کچھ دیر بعد آنے کا کہہ کر کہیں چلاگیا۔ شام ہوئی، پھر رات کا اندھیرا چھا گیا۔ اس کی واپسی نہ ہوئی۔ اگلے روز جب ہم گھر واپس آئے تو گھر کے سارے زیورات سے محروم ہوچکے تھے، منجھلے بھائی کی وجہ سے ہمارے گھر والوں کا نام پاکستان جانے والے خوش قسمت لوگوں کی فہرست میں آگیا۔ 1974ء کو آخری فلائٹ سے ہم لوگ کراچی پہنچے۔ اس سے پہلے سید پور کے کیمپ میں تین دن رہے، پھر ڈھاکا کے کیمپ میں چند دن اور کراچی آکر کورنگی کے لیبر فلیٹس میں ایک ہفتے تک ہمیں رکھا گیا۔
’یہاں کراچی میں ہماری بہن تھی تو ان کے پاس ہم چلے گئے۔ میں وہ کرائے کے مکان میں رہتی تھی اور نیپال کے راستے سے پہلے آچکی تھیں۔ کچھ دن وہاں رہے پھر اورنگی ٹاؤن چلے گئے، اورنگی ٹاؤن میں ایک جھونپڑی بنا لی اور کچھ مہینے وہاں رہے‘۔
ڈاکٹرصاحب نے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔