پاکستان

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جسٹس اعجاز الاحسن کو جوابی خط، الزامات پر اظہارِ مایوسی

میرے دروازے ہمیشہ سب کے لیے کھلے ہیں، اپنے ساتھیوں کے لیے ذاتی طور پر انٹرکام پر یا سیل فون پر بھی دستیاب ہوتا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کے خط کے جواب میں 3 صفحات پر مشتمل جوابی خط لکھ دیا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے لگائے گئے ’الزامات‘ پر انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ میرے دروازے ہمیشہ سب کے لیے کھلے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس جسٹس اعجاز الاحسن سے بنچوں کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت نہ کیے جانے کے الزام کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے لکھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے لیے ذاتی طور پر انٹرکام پر یا سیل فون پر بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے خدشات کا اظہار کرنے کے لیے ان سے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔

چیف جسٹس فائز عسیٰ نے تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے جسٹس اعجاز الاحسن سے اُن کا خط موصول ہونے کے بعد رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں ملا، بعدازاں معلوم ہوا کہ وہ جمعہ کی سہ پہر کام کے اوقات ختم ہونے سے پہلے ہی لاہور روانہ ہو چکے تھے۔

چیف جسٹس فائز عسیٰ نے افسوس کا ظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں ساڑھے 4 دن نہیں بلکہ 6 دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ اس سب کے باوجود اگر جسٹس اعجاز الاحسن کے پاس بینچوں کی تشکیل نو کے لیے کوئی تجاویز ہیں تو وہ اپنی تجاویز پیش کریں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ اس حوالے سے میں اور جسٹس سردار طارق مسعود ایک اجلاس کا اہتمام کریں گے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے ظاہر کی گئی مخصوص شکایت کا جواب دیتے ہوئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے لکھا کہ انہوں نے ابتدائی طور پر کمیٹی کا اجلاس اس وقت مقرر کیا تھا جب دن کے دوران منظور ہونے والے تمام احکامات لکھے، چیک کیے اور دستخط کیے جا چکے ہوں اور یہ جمعہ کی دوپہر تک ہونا تھا، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن کی درخواست پر کمیٹی کے اجلاس جمعرات کو مقرر کیے گئے تھے۔

انہوں نے یاددہانی کروائی کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے بینچ کی تشکیل کے بعد انہیں بتایا تھا کہ وہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے کیونکہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں کارروائی کا سامنا کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر وہ جسٹس سردار طارق مسعود یا جسٹس اعجاز الاحسن سے مشورہ ہی نہ کرنا چاہتے تو کیا وہ اس مشاورتی عمل کی حمایت کرتے اور اس کو نافذ کرتے کیونکہ جسٹس اعجاز الاحسن جس بینچ کا حصہ تھے وہ پہلے ہی سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کو معطل کر چکا ہے۔

جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 15 دسمبر کو جسٹس نقوی کی جانب سے دائر آئینی درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

عام انتخابات کیلئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ آج سے شروع ہوگی

پہلے ’پری زاد‘ میں کام کرنے سے انکار کردیا تھا، احمد علی اکبر

غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منظور