پاکستان

چیف جسٹس کی زیر سربراہی کارروائی پر بالکل یقین نہیں، جسٹس مظاہر کا سپریم کورٹ کے ججوں کو کھلا خط

سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین قانون اور اپنے بنیادی حقوق کی کھلم کھلا اور بار بار خلاف ورزی کر رہے ہیں، جسٹس مظاہر علی نقوی

جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔

27 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی نقوی کو ان کے خلاف درج 10 شکایات کے سلسلے میں شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور انہیں دو ہفتوں کے اندر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔

10 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

20 نومبر کو جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

4 دسمبر کو جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔

6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

آج ایک کھلے خط میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ان کے کیس کے بارے میں غلط معلومات کے حیران کن حجم کی وجہ سے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کو یہ خط لکھنے پر مجبور ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج آپ کو ان غلط معلومات کو زائل کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں، آپ کی توجہ ان تفصیلات کی جانب مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے اندر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ثبوت کو ریکارڈ پر لا سکوں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ چیف جسٹس اور جسٹس طارق مسعود نے ’آڈیو لیکس تنازع‘ کے بعد سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو میرے خلاف فوری طور پر کارروائی شروع کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔

فروری میں ایک آڈیو کلپ منظر عام پر آیا تھا جس میں مبینہ طور پر جسٹس مظاہر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ہونے والی گفتگو کو دکھایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پوچھنا ہوں کہ کیا پاکستان کے معزز چیف جسٹس اپنا وقار بچا سکے ہیں اپنی اور عدلیہ کی ساکھ پر چھائے غیریقینی کے بادل دور کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک جج جس نے اثاثے قانونی طور پر حاصل کیے اور ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیے، اس کو سپریم جوڈیشل کے سامنے سوال کرنے کے لیے بلایا جا رہا ہے جب کہ معزز چیف جسٹس کو اپنی غیر اعلانیہ جائیدادوں کے خلاف ایسی کسی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے؟۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا اس غیر معقول تفاوت کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز ہے؟۔

جسٹس نقوی نے کہا کہ مجھے اکتوبر میں بھیجے گئے شوکاز نوٹس میں قانونی، آئینی اور دائرہ اختیار کے سنگین نقائص تھے جس کا اظہار میں نے 10 نومبر کو جمع کرائے گئے جواب میں کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے عزت اور وقار کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے ایک نظر ثانی شدہ شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔

جج نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں سپریم جوڈیشل کونسل نے نادانستہ طور پر تسلیم کیا کہ ابتدائی شوکاز نوٹس ناقص تھا، اور یہ کہ میرے خلاف شکایات کی سچائی کی جانچ یا تحقیقات کے بغیر کارروائی شروع کی گئی، اور کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین میرے خلاف تعصب اور جانبدارانہ طرز عمل کی وجہ سے اس معاملے کی سماعت کے لیے نااہل ہیں۔۔

جج نے مزید کہا کہ کڑوا سچ بھی سچ ہی ہوتا ہے اور اس لیے میں اسے اسی انداز میں کہوں گا، سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین اور ممبران کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دفاع کے لیے ضروری دستاویزات کی فراہمی کے لیے اپنے سیکریٹری کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کو 11 بار خط لکھا جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری درخواستوں پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا ہے، میں نے تفصیلاً تحریر کر کے کم از کم چار مختلف مواقع پر چیئرمین اور سپریم جوڈیشل کونسل کے دو معزز اراکین کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن میری درخواستوں پر غور کیا گیا اور نہ جواب دیا گیا۔

جسٹس مظاہر نے نشاندہی کرائی کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس طارق مسعود کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں دوبارہ پوچھتا ہوں، کیا اس غیر معقول تفاوت کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز ہے، میرے بنیادی حقوق کی یہ صریح خلاف ورزی ۔۔۔ انصاف کی راہ میں واضح رکاوٹ ہے جس کا میں ملک کے سب سے باوقار قانونی فورم پر متلاشی ہوں۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان ایک متعصب، قابل اعتراض سپریم جوڈیشل کونسل سے زیادہ اعلیٰ اور بااختیار فورم نہیں ہے، کیا یہ قابل قبول طرز عمل ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین قانون اور اپنے بنیادی حقوق کی کھلم کھلا، واضح، غیر مربوط اور بار بار خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایک اعلیٰ جج کے خلاف شدید تعصب ثابت کرنے کے لیے یہ عمل ہی کافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ مجھے چیف جسٹس کی زیر سربراہی اس کارروائی پر بالکل یقین نہیں ہے، اس کا مقصد واضح اور پہلے سے طے شدہ ہے۔

خط کے آخر میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ میں سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھیلنے سے انکار کے نتائج بھگت رہے ہوں۔

جج نے مزید کہا کہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کی بوگس کارروائی کو چیلنج کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں اور آخر دم تک اس کا مقابلہ کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ میری ساکھ اہم ہے، میرے عہدے کی ساکھ زیادہ اہم ہے، لہٰذا یہ ایک خط ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ اب ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے، یہ اصول کا معاملہ ہے، میرا مسئلہ اب ادارے کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے اپنا خط ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان کسی بھی چیز کے لیے کھڑا نہیں ہوگا؟۔