سال نامہ: ’معاشی اعتبار سے پاکستان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘
سال 2023ء کا اختتام قریب ہے، جلد اس سال کا سورج غروب ہوجائے گا اور قوم ایک نئی امید کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرے گی۔ سال 2023ء کو معیشت اور سیاست کے حوالے سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی اعتبار سے سال 2023ء کو قبل از 9 مئی اور بعد از 9 مئی میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جبکہ معیشت میں پہلا دور سیاسی حکومت کے خاتمے تک جبکہ دوسرا دور عبوری حکومت کے قیام کے بعد کا ہے۔ اس تحریر میں ہم سال 2023ء میں ملکی معیشت کے احوال کا جائزہ لیں گے۔
جنوری سے لے کر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے تک کے دور میں جمہوری منتخب حکومت کام کررہی تھی۔ اس دور میں پاکستان کو سخت ترین معاشی مشکلات کا سامنا رہا اور معیشت سنبھالنے کے جو بھی اقدامات اٹھائے گئے اس سے عوام پر بوجھ میں اضافہ ہوا۔ مگر آئی ایم ایف نے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور عوام پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاکستان کو معیشت کی بحالی کے سخت ترین معاشی پروگرام پر عملدرآمد کے لیے مجبور کیا۔
منتخب سیاسی حکومت معیشت کے میکرو اکنامک انڈیکٹرز کو درست کرنے کی جدوجہد کرتی رہی۔ ڈالرز کی کمی کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کا توازن منفی ہونے، روپے کی قدر کو مستحکم نہ رکھ پانے اور بنیادی شرح سود کو موجودہ صدی کی بلند ترین سطح پر لے جانے کی وجہ سے معیشت میں عدم استحکام رہا اور حکومت کڑی تنقید کی زد میں رہی۔ افراطِ زر میں تیزی سے اضافے سے ملکی معیشت کا ہر شعبہ، صنعت، تجارت اور خدمات سب متاثر ہوئے اور معاشی ترقی کی شرح یعنی مقامی پیداوار (جی ڈی پی) منفی زون میں چلی گئی۔
منتخب حکومت کے اختتام سے چند روز قبل آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی پروگرام طے پایا۔ منتخب حکومت جاتے جاتے آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالرز کے قرض کی قسط لینے میں کامیاب ہوئی جس کے بعد دوست ملکوں اور دیگر قرض دینے والے اداروں نے پاکستان کو قرض کا اجرا کیا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کی منظوری کے بعد ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے۔
اگر سال 2023ء میں بعض قوتیں مسلسل پاکستان کے دیوالیہ ہونے پر اصرار کرتی رہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی برادری پاکستان کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھی۔ کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے عبوری پروگرام حاصل کیا گیا۔ سال 2023ء میں معاشی مشکلات کے باوجود بہت سے اہم معاشی فیصلے ہوئے تو آئیے ان اہم معاشی معاملات کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
سابقہ دور حکومت میں ایک قانون سازی کے ذریعے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل یا ایس آئی ایف سی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذریعے ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی میں بھی پاکستان کی مسلح افواج کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔
ایس آئی ایف سی کے قیام کا مقصد مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ اس خصوصی کونسل کو دفاعی صنعت، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، اور توانائی کے شعبوں میں منصوبے شروع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ کونسل ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے سنگل ونڈو آپریشن کے طور پر کام کرے گی کیونکہ اس کونسل کی ذمہ داری سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، سرخ فیتے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بروقت فیصلہ سازی کو یقینی بنانا ہے۔
ایس آئی ایف سی کے قیام کی بڑی وجہ یہ تھی کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پاکستان سے اپنی فوڈ سیکیورٹی کے لیے شراکت داری چاہتے ہیں مگر ملکی بیوروکریسی کے عدم تعاون کی وجہ سے کوئی بھی منصوبہ روبہ عمل نہ لایا جاسکا۔ اس حوالے سے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ایس آئی ایف سی قائم کی گئی۔
کونسل کے اقدامات کی وجہ سے اب تک متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کی متعدد مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ کونسل نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے دبئی میں پاکستان کے سرمایہ کاری مواقع پر روڈ شو بھی منعقد کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی کو روز مرہ کے منصوبوں پر توجہ دینے کے بجائے سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، بیوروکریسی میں سرمایہ کاری دوست ماحول کو فروغ دینا اور پالیسی سازی میں اہم فیصلے بروقت کرنے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔
پاکستان کے حالیہ بحران کی بڑی اور اہم وجہ بیرونی ادائیگیوں کے لیے ڈالر یا زرِمبادلہ کی قلت ہے۔ اس قلت کو دور کرنے کے لیے سابقہ منتخب حکومت نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر آئی ایم ایف نے کڑی شرائط عائد کردیں تو دوسری طرف دوست ممالک اور دیگر قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں نے بھی قرض کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرط رکھ دی۔
آئی ایم ایف کا اسٹینڈ بائی پروگرام تین اقساط پر مشتمل ہے جس میں 1.2 ارب ڈالرز کی پہلی قسط کا اجرا سابقہ منتخب حکومت کے دور میں کیا گیا۔ جبکہ 70 کروڑ ڈالرز کی دوسری قسط نگران حکومت کو دسمبر میں ملنے کی توقع کی جارہی تھی مگر بورڈ کا اجلاس جنوری میں ہوگا جس کے بعد قسط کا اجرا کیا جائے گا۔ تیسری قسط انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو ملے گی مگر ملکی معیشت اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ پاکستان کو ایک طویل مدتی اور زیادہ گہرے اصلاحات کے منصوبے کے ساتھ آئی ایم ایف سے قرض کا پروگرام بھی لینا ہوگا۔
آئی ایم ایف پاکستان کو 23 سے زائد پروگرام دے چکا ہے اور اس کے باوجود پاکستانی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی ہے۔ اس لیے اب آئی ایم ایف پاکستان کو معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی سفارش پر بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو آئی ایم ایف نے شرائط پوری ہونے کے بعد مزید شرائط عائد کردی ہیں۔ عالمی فنڈ نے سرکاری کاروباری اداروں جیسا کہ پی آئی اے اسٹیل ملز اور دیگر کی نجکاری، ریئل اسٹیٹ اور زراعت پر ٹیکس عائد کرنے اور دیگر اصلاحات کرنے کی شرط بھی عائد کردی ہے۔
سال 2023ء کے آغاز پر اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر 3 ارب 11 کروڑ ڈالرز تھے۔ زرمبادلہ ذخائر میں اتار چڑھاؤ کے باوجود جون میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 44 کروڑ ڈالرز کی سطح پر آگئے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد قرض ملنے کا سلسلہ شروع ہوا جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جولائی میں بڑھ کر 8 ارب 13 کروڑ ڈالرز رہ گئے ہیں۔
اس وقت 7 ارب ڈالرز سے زائد زرِمبادلہ اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ہے۔ جوکہ ڈیڑھ ماہ کے درآمدی بل کے مساوی ہیں۔ مستقبل قریب میں زرِمبادلہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک سے 6.3 ارب ڈالرز جبکہ دوست ممالک سے 10 ارب ڈالرز کا قرض منظور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے سال 2023ء کا آغاز روپے کی قدر میں تیز رفتار گراوٹ سے ہوا۔ جنوری میں انٹر بینک میں ایک ڈالر 230 روپے کا تھا جوکہ مہینے کے اختتام تک 276.58 پر پہنچ گیا اور تقریباً پورا سال ہی روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ دیکھا جاتا رہا۔ ستمبر میں ڈالر 300 روپے کی حد عبور کرتے ہوئے 307.10 روپے کا ہوگیا۔ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی 320 روپے کی پیشکش کی جارہی تھی مگر اس قیمت پر بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر دستیاب ہی نہ تھا۔
اوپن اور انٹر بینک مارکیٹ میں بہت بڑے فرق کی وجہ سے سٹے بازوں اور اسمگلرز نے بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر خریداری شروع کردی۔ اس تمام صورتحال پر ایس آئی ایف سی میں بات چیت کی گئی اور سٹے بازوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور روپے کی قدر میں بتدریج بہتری آنے لگی اور 8 دسمبر کو ایک ڈالر 283 روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 283.87 روپے پر دستیاب ہے۔
زرِمبادلہ مارکیٹ میں سٹے بازی کو ختم کرنے اور قانونی لین دین کو فروغ دینے کے لیے اسٹیٹ بینک نے دو اہم اقدامات اٹھائے۔ پہلا قدم 10 بینکوں کو ایکسچینج کمپنیاں قائم کرنے کی ہدایت ہے۔ اس فیصلے سے بینکوں کی برانچز کے ذریعے ڈالر اور دیگر زرِمبادلہ کا لین دین بھی ممکن ہوسکے گا اور اگر تمام بینکس اپنی برانچز میں زرِمبادلہ کے کاؤنٹر قائم کرلیں تو 15 ہزار برانچز پر یہ سہولت دستیاب ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس کو تبدیل کرتے ہوئے اے، بی اور فرنچائز کیٹگری کو ختم کرتے ہوئے ایک لائسنس کے اجرا کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس کے علاوہ ایکسچینج کمپنیوں میں سرمائے کی قلت کو دور کرنے کے لیے ادا شدہ سرمائے کو 50 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کردیا گیا ہے۔
سال 2023ء مہنگائی کے لحاظ سے بدترین سال ثابت ہوا ہے۔ اس کے آغاز سے ہی ایندھن، غذائی اجناس کے مہنگا ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سال 2023ء کے آغاز سے ہی معیشت میں قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جارہا تھا۔ کنزیومر پرائس انڈیکس جنوری میں 27.6 فیصد تھا جوکہ گزشتہ سال جنوری سے 13 فیصد زائد تھا۔ شہری علاقوں میں عام استعمال کی اشیا کی قیمت 24.4 فیصد کی شرح سے بڑھیں جبکہ دیہی علاقوں میں اشیا کی قیمت 32.3 فیصد کی شرح سے اضافہ دیکھا گیا۔ نومبر میں انفلیشن یا افراطِ زر دوبارہ کم ہوکر 29.2 فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔ شہری علاقوں میں قیمتوں کے اضافے کی شرح 30.4 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 27.5 فیصد رہی۔
مئی 2023ء میں افراطِ زر 38 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ اپریل مئی میں فوڈ انفلیشن 48 فیصد سے زائد ریکارڈ کی گئی۔
اس مہنگائی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو بنیادی شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا۔ اسٹیٹ بینک کے بنیادی کاموں میں مہنگائی یا افراط زر کو قابو کرنا شامل ہے اور اس کے لیے تمام ممالک کے مرکزی بینک مانیٹری پالیسی کا سہارا لیتے ہیں۔ سال 2023ء کےآغاز پر جنوری میں بنیادی شرح سود کو ایک فیصد بڑھا کر 17 فیصد کردیا گیا۔ مارچ میں مزید اضافے کے ساتھ 21 فیصد، اپریل میں 22 فیصد، جون میں 23 فیصد کردیا گیا۔ موجودہ مالی سال میں بنیادی شرح سود کو 22 فیصد پر مستحکم رکھا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے 12 دسمبر کو ہونے والے اعلان میں بھی شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔
پاکستان میں توانائی کا شعبہ جس میں بجلی، گیس اور پیٹرولیم شامل ہیں معیشت پر دن بہ دن بھاری پڑتا چلا جارہا ہے اور مہنگی ہوتی ہوئی توانائی عوام کی قوتِ خرید اور مقامی معیشت کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے عوام کی بل ادا کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر کی ہے۔ گردشی قرضے 5 ہزار 511 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس میں بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2 ہزار 611 ارب روپے اور گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 2 ہزار 900 ارب روپے ہے۔
پاکستان کے بجلی کے شعبے پر اپنی رپورٹ میں عالمی بینک نے انکشاف کیا ہے کہ ریاست نے بجلی کے پیداواری شعبے سے جو معاہدے کیے ہیں اس کی وجہ سے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بجلی 45 فیصد سے زائد مہنگی ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کا اعتراف وفاقی نگران وزیر برائے توانائی محمد علی بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت 15 سینٹس فی یونٹ ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں بجلی 8 سے 9 سینٹس فی یونٹ پر فروخت ہورہی ہے۔ نیپرا کے جاری کردہ نرخ کے مطابق گھریلو صارفین کو 42.72 روپے فی یونٹ تک بجلی فراہم کی جاری ہے۔ نگران حکومت کی جانب سے بجلی چوری کے خلاف بڑا کریک ڈاون کیا گیا جس میں 52 ارب روپے کی ریکوری میں اضافہ ہوا۔ بجلی چوری کے خلاف 3 ہزار 400 مقدمات درج ہوئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے بجلی مہنگی کرنے اور بجلی کی چوری کے خلاف ہونے والے کریک ڈاون کے باوجود گردشی قرضوں میں کسی طور کمی نہیں ہورہی ہے۔ ایک طرف بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے تو دوسری طرف سرکار کی ملکیت میں موجود تقسیم کار کمپنیوں میں نااہلی اقربا پروری اور بد عنوانی کی وجہ سے حالات نہایت مخدوش ہیں۔ یو ایس ایڈ کی رپورٹ کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ٹیکنیکل اور کمرشل سطح پر زیادہ سے زیادہ 11 فیصد نقصانات کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ مگر پاکستان میں ڈیسکوز کے نقصانات کی شرح اوسطاً 19 فیصد ہے جبکہ پشاور اور سکھر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نقصانات 37 فیصد تک ہیں۔
پاور ڈویژن نے اکتوبر تک گردشی قرضے کی رپورٹ جاری کی ہے جوکہ کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ جون میں مجموعی گردشی قرضہ 2 ہزار 310 ارب روپے تھا اور ستمبر میں یہ بڑھ کر 2 ہزار 611 ارب روپے ہوگیا ہے یعنی گردشی قرضے میں 301 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
نقصان میں چلنے والی ان ڈیسکوز کو پہلے صوبوں کے حوالے کرنے کی بات کی گئی مگر اب عالمی بینک اور ایس آئی ایف سی کی مشاورت سے طویل مدتی معاہدے کے تحت نجی شعبے کے حوالے کرنے پر عمل کیا جارہا ہے اور جلد پالیسی کابینہ میں پیش کی جائے گی۔
نگران حکومت نے گیس کی قیمت میں یکمشت 194 فیصد اضافہ کیا ہے جوکہ پاکستان کی تاریخ میں گیس کی قیمت میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 174، کمرشل صارفین کے لیے 137 فیصد جبکہ سیمنٹ سیکٹر کے لیے 193 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل گیس کی قیمت میں سابقہ حکومت نے 112 فیصد اضافہ کیا تھا۔ اس طرح مجموعی طور پر گیس 305 فیصد مہنگی ہوگئی ہے جبکہ جنوری میں گیس کی قیمتوں میں مزید 137 فیصد اضافے کے لیے حکومت تیاری کررہی ہے۔
گیس مہنگی ہونے کے باوجود سردیوں میں گیس کی دستیابی کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور پائپ گیس کے کنکشن کے باوجود عوام ایل پی جی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی میں ان کی قیمتوں سے منسلک ہیں۔ اس لیے ہم روپے کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈالر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سال 2023ء کے آغاز پر ایک لیٹر پیٹرول ایک ڈالر میں فروخت ہورہا تھا جوکہ بتدریج کمی کے بعد جولائی میں 88 سینٹس پر آگیا۔ مگر عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ستمبر میں پیٹرولیم کی قیمت 1.15 ڈالرز کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جس کے بعد عالمی منڈی میں پیٹرولیم قیمتوں میں کمی کے بعد نومبر میں ایک لیٹر پیٹرول 99 سینٹس پر فروخت ہورہا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اثر روپے کی گراوٹ پر بھی پڑتا ہے۔ پیٹرولیم کی قیمت میں نگران حکومت کے قیام کے بعد دو مرتبہ ہوشربا اضافہ کیا گیا۔ پہلے ہی مہینے میں دو مرتبہ اضافے کے ساتھ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 35 روپے بڑھائی گئی اور پیٹرول کی قیمت تاریخ میں پہلی مرتبہ 300 روپے فی لیٹر کی سطح عبور کرگئی۔
ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں طلب میں کمی دیکھی گئی۔ مالی سال 2023ء کے اختتام تک پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 16.61 ٹن تھی جبکہ مالی سال 2022ء میں یہ 22.6 ملین ٹن تھی۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بینچ مارک کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں ان دونوں بہت تیزی دیکھی جاری ہے۔ مگر مالی سال کے آغاز پر کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 41 ہزار پوائنٹس کی سطح پر تھا اور جولائی کے اختتام تک انڈیکس 41 سے 40 ہزار کے درمیان متحرک رہا جبکہ کاروباری سرگرمیاں محدود رہیں۔ نگران حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیتموں میں اضافے اور ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ دیکھا گیا۔
اسٹاک مارکیٹ میں جولائی اور اگست کے دوران تیزی مگر ستمبر میں گرواٹ دیکھی گئی جس کے بعد اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے پہلے عشرے میں کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں تیزی دیکھی گئی اور انڈیکس میں 21 ہزار 148 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اہم وجوہات میں ایس آئی ایف سی کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے کاوشوں کے علاوہ روپے کی قدر میں ہونے والے سٹے بازی اور ریئل اسٹیٹ کی مارکیٹ میں لگنے والے سرمائے کی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی جانب منتقلی اہم ہیں۔
تمام اضافے کے باوجود مارکیٹ اب بھی ڈالر کی مالیت سال 2017ء کی سطح پر نہیں پہنچ پائی ہے۔ سال 2017ء میں جب کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 53 ہزار کی سطح پر پہنچا تھا تو مارکیٹ کیپٹلائزیشن 100 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھی۔ مگر روپے کی قدر میں تیزی سے کمی سے مارکیٹ کیپٹلائزیشن 25 ارب ڈالرز تک نیچے آگئی تھی۔ اس وقت انڈیکس کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا مگر ڈالر میں مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں 33.46 ارب ڈالرز تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یعنی اب بھی اسٹاک ایکسچینج کو ڈالرز کی مد میں سال 2017ء کی سطح پر پہچنے کے لیے تین گنا اضافہ کرنا ہوگا۔
سال 2023ء کے آغاز پر دنیا بھر میں افراطِ زر کی وجہ سے مشکل معاشی صورتحال دیکھی جارہی ہے۔ سال کے آخر تک عالمی معیشت میں کچھ بہتری کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ پاکستان نے ڈالر کی قلت کی وجہ سے کامیابی سے اپنے تجارتی خسارے کو کم کیا جس سے عارضی طور پر معاشی سرگرمی متاثر ہوئی مگر جاری کھاتوں کا خسارہ بھی کم ہوا۔ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 58 فیصد کی بہتری آئی ہے اور یہ خسارہ 1 ارب 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز رہ گیا ہے جبکہ مالی سال 24-2023ء کے لیے خسارے کا ہدف 6.5 ارب ڈالرز رکھا گیا ہے۔
عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تجارت 8 ہزار 850 ارب ڈالرز ہے جبکہ پاکستان اس شعبے میں صرف 2.6 ارب ڈالرز کما رہا ہے۔ ایک پڑھی لکھی نوجوان آبادی کے پیشِ نظر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ بڑھنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ گزشتہ چند سال میں پاکستان سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
سال 2019ء میں پہلی مرتبہ پاکستان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات کے لیے ایک ارب ڈالرز کا ہدف پورا کیا اور ایک ارب 29 کروڑ ڈالرز کی برآمدات ہوئی تھیں۔ سال 2020ء میں ایک ارب 72 کروڑ، سال 2021ء میں 2.45 ارب روپے اور مالی سال 2022ء کے اختتام پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات 2ارب 60 کروڑ ڈالر رہیں۔ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان انفرادی طور پر فری لانسنگ کی ویب سائٹس کے ذریعے کام کررہے ہیں اور پاکستان فری لانسنگ میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن گیا ہے۔
نگران حکومت نے اس حوالے سے ایک پالیسی کا اجرا کیا ہے جس میں آئی ٹی کی برآمدات 10 ارب ڈالرز تک بڑھانے کا ہدف رکھا گیا ہے لیکن اس حوالے سے متعدد رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کی 50 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ کی رسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں مقیم افراد کے لیے اس شعبے میں آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے سب سے اہم اس کا انفراسٹرکچر ہے لیکن ملک کی ٹیلی کام کمپنیاں مسلسل مشکلات کا شکار ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت نے ان کے کاروبار کو مشکل بنادیا ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں پر سپر ٹیکس عائد کیے جانے کی وجہ سے ٹیکس 29 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد ہوگیا ہے۔ موبائل فون کے استعمال پر ودھ ہولڈنگ ٹیکس 12.5 فیصد سے بڑھ کر 15 فیصد کردیا گیا ہے۔ شرح سود 22 فیصد کو پہنچ چکی ہے۔ جب بھی ایک فیصد شرح سود بڑھتی ہے تو ٹیلی کام صنعت پر ڈیڑھ ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے خدمات کی فراہمی کی لاگت تیزی سے بڑھ گئی ہے۔
ٹیلی کام صنعت کو انٹرنیٹ اور دیگر خدمات فراہم کرنے کے لیے اسپکٹرم کی ضرورت ہوتی ہے۔ سال 2004ء میں اسپکٹرم کی فی میگاہرٹز لاگت ایک ارب روپے تھی جوکہ اب بڑھ کر ساڑھے 8 ارب روپے ہوگئی ہے اور اس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے لیکن موبائل فون پر اوسط انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اسپکٹرم کی فی میگاہرٹز لاگت میں اضافہ روپے کی قدر میں کمی سے ہوا ہے کیونکہ اسپکٹرم کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ سال 2017ء میں ایک صارف یومیہ اوسطاً 2 جی بی انٹرنیٹ استعمال کرتا تھا جوکہ اب بڑھ کر یومیہ 8.3 جی بی ہوچکا ہے۔
عمومی مہنگائی کی وجہ سے عوام میں ٹیلی کام پر ہونے والے اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے۔ 19.5 کروڑ موبائل استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں اس وقت 18.9 کروڑ صارفین موبائل استعمال کررہے ہیں یعنی چند ماہ میں صارفین کی تعداد میں 60 لاکھ کی کمی ہوئی ہے۔ ٹیلی کام صنعت کی آپریشن لاگت بڑھنےکے علاوہ فی صارف اوسط ریونیو میں اضافہ نہیں دیکھا جارہا ہے۔ اوسط ریونیو سال 2017ء میں 212 روپے تھا جوکہ سال 2022ء میں معمولی اضافے کے بعد 232 روپے ہوگیا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر صنعتیں ایسی ہیں جو مقامی خام مال کے بجائے درآمدی خام مال پر کام کرتی ہیں۔ ان میں آٹوموبیل، کیمیکلز، ادویات سازی، پیٹرولیم، فولاد سازی اور ٹیکسٹائل کی صنعت شامل ہیں۔ سابقہ حکومت کے دور میں زرِمبادلہ کی قلت کی وجہ سے ایل سیز کھولنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس عمل نے درآمدی خام مال پر کام کرنے والی صنعتوں کو بری طرح متاثر کیا اور انہوں نے اپنے پیداواری یونٹس کو عارضی طور پر بند کیا جس سے صنعتی ترقی متاثر ہوئی۔
پاکستان کا صنعتی شعبہ گزشتہ مالی سال کے دوران مسلسل گراوٹ کا شکار دیکھا گیا۔ اسٹیٹ بینک کے جاری اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2023ء کے اختتام پر صنعتی شعبے میں 14.55 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 1990ء سے 2023ء تک پاکستان میں صنعتی پیداوار کی سالانہ اوسط 4.72 فیصد رہی۔ اپریل 2021ء میں پاکستان کی صنعتی پیداوار 77.76 فیصد کی سطح پر دیکھی گئی تھی جوکہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ 2020ء میں کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون نے صنعتی ترقی کو بری طرح متاثر کیا اور اپریل 2020ء میں صنعتی پیداوار 45.91 فیصد تک کم ہوگئی تھی۔
صنعتی پیداوار کے مسلسل 14 ماہ گرواٹ کے بعد اگست 2023ء میں صنعتی پیداوار میں 2.5 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ اس کی وجہ ایل سیز کھولنے پر لگی پابندیوں کے خاتمے اور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں بہتری ہے۔ عالمی سطح پر بھی معاشی سرگرمیوں میں بہتری نے ملکی برآمدی اور مقامی صنعت پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ ٹیکسٹائل، غذائی اجناس، مشروبات اور ادویات سازی میں بہتری دیکھی جارہی ہے۔
زرعی شعبے میں بھی سال 2023ء میں بہتری دیکھی گئی۔ ٹیکسٹائل شعبے کا سب سے اہم خام مال کپاس کی پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا۔ کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے 127 فیصد اضافے کے ساتھ ایک کروڑ 15 لاکھ بیلز رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ چاول مقامی کھپت کے علاوہ بڑے پیمانے پر بیرونِ ملک بھی فروخت ہوتا ہے اور اس کی پیداوار میں 18 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ زرعی شعبے کی مشینری میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ٹریکٹرز کی فروخت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
ایس آئی ایف سی نے بھی قلیل مدت میں زرعی شعبے میں کامیابی سے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ زرعی ترقی کے پروگرام پاکستان گرین انیشیٹو کے تحت ملک کے صحرائی علاقوں میں زراعت کو فروغ دیا جارہا ہے جس میں ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ مستقبل میں پاکستان نہ صرف مقامی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوگا بلکہ چین اور خلیجی ممالک کی زرعی ضروریات کو بھی پورا کرسکے گا۔ پاکستان گرین انیشیٹو کے پہلے مرحلے میں چولستان کے صحرائی علاقے میں زراعت کا آغاز کیا گیا ہے اور جہاں ریت اڑا کرتی تھی اب وہاں سبزہ لہلہا رہا ہے۔
پاکستانیوں کے لیے سال 2023ء معاشی لحاظ سے ایک مشکل ترین سال ثابت ہوا۔ مہنگائی، ملازمت کے مواقع میں کمی، روپے کی ناقدری کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار رہے۔ سال 2024ء کے بارے میں معاشی ماہرین بہت پُرامید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال میں کیے گئے مشکل فیصلوں کے ثمرات نئے سال میں زیادہ نمایاں ہوں گے۔
عوام اس بات پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ معیشت میں جو بہتری آئی ہے وہ کہیں نئی منتخب حکومت قائم ہوتے ہی خاکستر نہ ہوجائے۔ عوام اور سول سوسائٹی کے ماہرین انتخابات کے بعد ایک معلق پارلیمنٹ کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی قائم ہونے والی حکومت مشکل فیصلے کر پائے گی یا نہیں۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔