پاکستان

اقوام متحدہ میں غزہ سیز فائر پر اتفاق رائے نہ ہونے پر پاکستان کا اظہار مایوسی

غزہ کے عوام جس اجتماعی سزا کو برداشت کررہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی، اسرائیلی اقدامات سے وسیع تر اور زیادہ خطرناک تنازع بھی جنم لے سکتا ہے، دفتر خارجہ

پاکستان نے اقوام متحدہ میں غزہ میں جنگ بندی کی اپیل پر اتفاق رائے نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انسانی المیہ سے بچنے کے لیے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی ووٹنگ پر امریکا نے ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے قرارداد کو مسترد کردیا اور جنگ بندی کا امکان دم توڑ گیا۔

دفترخارجہ کے ہفتہ کو جاری بیان میں کہا گیا کہ غزہ میں بڑے پیمانہ پر انسانی المیے کے باوجود سلامتی کونسل جنگ بندی کی اپیل پر اتفاق رائے میں ناکام رہی جس سے پاکستان کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔

ترجمان نے کہاکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کی درخواست اور غزہ میں انسانی تباہی کے بارے وارننگ کے باوجود سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ غزہ کے محصور عوام جس اجتماعی سزا کو برداشت کررہے ہیں وہ ناقابل قبول ہے اوراس کی مثال نہیں ملتی۔

ترجمان نے کہاکہ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی مہم کے تسلسل سے انسانی مصائب میں اضافہ ہو گا، بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوں گی اور لاکھوں لوگوں کو جبری طورپر بے گھر ہونا پڑے گا، ان اسرائیلی اقدامات سے وسیع تر اور زیادہ خطرناک تنازع بھی جنم لے سکتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ غزہ کے عوام پر بلا تعطل بمباری کو طول دینے میں تعاون فراہم کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان نے انسانی المیہ سے بچنے کے لیے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل سے غزہ پر وحشیانہ حملے اور غیر انسانی محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارروائی، اس غیرانسانی جنگ کے خاتمے اور غزہ کے عوام کو کو نسل کشی سے بچانے کے لیے کردار ادا کرنے کامطالبہ کرتا ہے۔

اردوان نے سیکیورٹی کونسل کو اسرائیل پروٹیکشن کونسل قرار دے دیا

دوسری جانب ترکیہ نے بھی اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو امریکا کی جانب سے ویٹو کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا اور اس فیصلے پر برہم ترک صدر نے سلامتی کونسل کو ’اسرائیل پروٹیکشن کونسل‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

اردوان نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد سے سیکیورٹی کونسل دراصل اسرائیل پروٹیکشن اور ڈیفنس کونسل بن چکی ہے۔

امریکا کی جانب سے سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کیے جانے پر ترک صدر نے کہا کہ کیا یہ انصاف؟ اور سیکیورٹی کونسل کے پانچ اراکین کو حاصل ویٹو کی طاقت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا پانچ اراکین سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے پیسے اور عسکری سازوسامان کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ، ایک نئی دنیا بالکل ممکن ہے لیکن ایسا صرف امریکا کے بغیر ہی ممکن ہے اور امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کی کتنی قیمت ادا کریں گے۔

ترکیہ کے وزیر خارجہ ہکان فدان نے بھی ریاستی نشریاتی ادارے ٹی آرٹی سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ ہمارے دوستوں نے ایک بار پھر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امریکا اب اس معاملے خاص طور پر اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ پر تنہا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل-حماس تنازع پر جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کردیا تھا۔

متحدہ عرب امارات کی جانب سے تیار کردہ قرارداد کو پاکستان سمیت 97 ممالک کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا اور سلامتی کونسل کے 15 میں سے 13 اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیا جبکہ امریکا نے اسے ویٹو کردیا اور برطانیہ نے ووٹنگ سے گریز کیا۔

سفارت کاروں نے نوٹ کیا کہ سیکیورٹی کونسل میں ووٹنگ کی زیادہ تعداد نے امریکا کو تنہا کر دیا ہے، کیونکہ وہ اپنے اتحادی اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکی نائب سفیر رابرٹ وُڈ نے جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنہائی کا مسئلہ نہیں ہے،ہمارے خیال سے یہ مسئلہ اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش اور غزہ میں جانے والی مزید انسانی امداد کو سہولیات فراہم کرنے کا ہے۔

ووٹنگ سے پہلے انہوں نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم چٹکیاں بجائیں اور جنگ رک جائے، یہ ایک انتہائی مشکل صورتحال ہے۔

امریکا اور اسرائیل اس وجہ سے جنگ بندی کے خلاف ہیں کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ یہ صرف حماس کو فائدہ پہنچائے گی۔

ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ غزہ میں انسانی امداد کے نظام کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا خطرہ ہے، جس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ اس کے نتائج پورے خطے کی سلامتی کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں، مقبوضہ مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق اور یمن پہلے ہی تنازعات کی طرف کھینچے جا چکے ہیں۔

ادھر غزہ پر اسرائیل کے حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور ہید ہونے والوں تعداد تقریباً 17ہزار 500 ہو گئی ہے جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

اس کے علاوہ ہزاروں افراد زخمی ہیں اور ایک بڑی تعداد لاپتا ہے جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔