شہزاد اکبر کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد پولیس کا انٹرپول سے رابطہ
اسلام آباد دارالحکومت پولیس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے داخلہ اور احتساب مرزا شہزاد اکبر کی گرفتاری میں مدد کے لیے انٹرپول سے رابطہ کر لیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق شہزاد اکبر کے خلاف مختلف مجرمانہ الزامات کے تحت سیکریٹریٹ تھانے میں درج مقدمات کے سلسلے میں انٹرپول سے رابطہ کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 420، 468، 471، 385، 396، 389، 500 اور 506 کے تحت درج کیس کے تفتیش کاروں نے شہزاد اکبر کی گرفتاری میں مدد کے لیے انٹرپول سے تحریری درخواست کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کے ذریعے پاکستان میں انٹرپول کے نمائندے کو خط لکھا گیا تھا جس میں سابق مشیر کے لیے ریڈ نوٹس جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
ریڈ وارنٹ نوٹس کے ذریعے دنیا بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ حوالگی، ہتھیار ڈالنے یا اسی طرح کی قانونی کارروائی کے سلسلے میں ملزم کو تلاش کر کے اسے عارضی طور پر گرفتار کرے۔
ذرائع نے بتایا کہ نمائندہ اس درخواست کو فرانس کے شہر لیون میں انٹرپول ہیڈ کوارٹر کو بھیجے گا اور وہاں سے ریڈ نوٹس جاری کیا جائے گا۔
ریڈ نوٹس کے اجرا کے بعد ان کے پاسپورٹ سمیت سفری دستاویزات کے ذریعے پتہ لگایا جائے گا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، ذرائع نے مزید کہا کہ دارالحکومت کی پولیس سفری دستاویزات کی تفصیلات انٹرپول کو فراہم کرے گی۔
سیکریٹریٹ پولیس اسٹیشن میں مقدمہ دبئی کے رہائشی اور ایک کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور کی شکایت پر درج کیا گیا جو کہ ایک افریقی ملک میں بطور سفیر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، عمر فاروق ظہور وہی شخص ہیں جنہوں نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان سے توشہ خانہ کی قیمتی گھڑی خریدی تھی۔
یہ مقدمہ سابق معاون خصوصی شہزاد اکبر کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کے افسر علی مردان شاہ، خوش بخت مرزا، مریم مرزا، مائرہ خرم اور عمید بٹ کے خلاف بھی درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق لاہور میں ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل نے درخواست گزار کی سابقہ اہلیہ خوش بخت مرزا کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر انکوائری شروع کی تھی، انکوائری کے نتیجے میں 5 اکتوبر 2020 اور 10 اکتوبر 2020 کو دو ایف آئی آر درج کی گئیں۔
ایف آئی آر میں سے ایک میں درخواست گزار اور دیگر پر سوئٹزرلینڈ میں سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے جبکہ دوسری ایف آئی آر نے ان پر ناروے میں بینک فراڈ کا الزام لگایا، تاہم ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان الزامات کی پہلے ہی پاکستان اور متعلقہ ممالک دونوں میں تحقیقات کرکے مقدمے کو بند کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا کہ ایف آئی اے حکام نے وزیر اعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے کہنے پر جھوٹا مقدمہ درج کیا جنہوں نے مبینہ طور پر مذکورہ تمام ملزمان کی موجودگی میں اپنے دفتر میں جعلی دستاویزات تیار کیں، شہزاد اکبر نے کابینہ سے منظوری لیتے ہوئے اس حقیقت کو چھپایا کہ سوئٹزرلینڈ اور ناروے میں مقدمات پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔
ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ مکمل تحقیقات کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایف آئی آر میں الزامات جھوٹے، غیر سنجیدہ اور جعلی دستاویزات پر مبنی تھے، اس کے نتیجے میں جے آئی ٹی نے دونوں ایف آئی آر کی منسوخی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔
عدالت نے دونوں کینسلیشن رپورٹس سے اتفاق کیا تاہم، ملزمان نے عمید بٹ اور علی مردان شاہ کی ملی بھگت سے مبینہ طور پر درخواست گزار سے بلیک میلنگ اور رقم بٹورنے کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں اور ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف جھوٹے فوجداری مقدمات درج کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزمان نے درخواست گزار کو مزید مقدمات کے اندراج اور رقم بٹورنے کے ساتھ ساتھ کئی مواقع پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔