پاکستان

افغان مہاجرین سے متعلق عمران خان کا بیان افغان حکومت کی ’ہمدردی‘ حاصل کرنے کی کوشش ہے، مرتضیٰ سولنگی

الیکشن 8 فروری کو ہوں گے، ایک دوسرے پرالزام تراشی میں نگران حکومت اپنا حصہ نہیں ڈالے گی، مرتضیٰ سولنگی کی وزیر اطلاعات بلوچستان کے ہمراہ پریس کانفرنس

نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا افغان مہاجرین سے متعلق بیان افغان حکومت اور بالواسطہ ان کے بھیجے ہوئے ٹی ٹی پی کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

کوئٹہ میں نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں مرتضیٰ سولنگی نے عمران خان پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے جو سابق سربراہ ہیں وہ اس وقت جس جگہ اور جن حالات میں ہیں اس میں جو سہولیات ان کو پیش کی جارہی ہیں اس میں یہ سہولت موجود نہیں ہے کہ وہ پوسٹ کریں، تو مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ پوسٹ انہوں نے خود کی ہے یا ان کے مؤکلوں نے کی ہے لیکن اگر ہم یہ مان لیں کہ یہ ان کے دل کی آواز ہے تو میری خواہش یہ ہوتی کہ پاکستان کے جو 25 کروڑ عوام ہیں ان کی مشکلات کے بارے میں بھی وہ گفتگو کرتے، بجائے اس کے کہ وہ غیر قانونی طور پر افغان کی ترجمانی کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو الزام اس پوسٹ کے اندر ہے وہ بے بنیاد ہے، صحافیوں سے بہتر یہ کون جاتا ہے کہ پاکستان سے جو تقریباً 5 لاکھ لوگ گئے ہیں ان کی اکثریت کو دھکے دے کر نہیں نکالا گیا بلکہ اکثر لوگ رضاکارانہ طور پر گئے ہیں، چند ہزار لوگ ہی ایسے ہیں جن کو جبری یا غیر رضاکارانہ طور پر بھیجا گیا، ایک دو ہی کوئی زیادتی کے واقعات ہوئے ہوں گے اور اگر یہ ہوں گے تو انتظامیہ اس کا نوٹس لے گی اور ہم واپس جانے والوں کی انسانی اقدار کا خیال رکھیں گے، پاکستان کی شہرت مہمان نوازی کی ہے تذلیل کی نہیں ہے تو 80 کی دہائی سے سب سے زیادہ افغان مہاجرین ہمارے ملک میں ہی آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس پوسٹ کی مدد سے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ افغانستان کی وہ حکومت جس کو دنیا کا کوئی ملک سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، ان کی ہمدردی حاصل کی جائے اور بالواسطہ ان کے بھیجے ہوئے ٹی ٹی پی کے جو لوگ ہیں ان کی ہمدردی حاصل کی جائے اور اگلے انتخابات میں ایسی صورتحال پیدا کی جائے جس میں ان کی جماعت کو ایک طرح سے فائدہ حاصل ہو دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں، اگر ایسا ہے تو یہ ایک افسوسناک بات ہوگی کیونکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات میں تمام جماعتوں کو برابر سیکیورٹی کے مواقع حاصل ہوں۔

نگران وزیر اطلاعات نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ پوچھنے کی بات ضرور ہے کہ جب ان کی حکومت ختم ہوئی اس سے پہلے ٹی ٹی پی کے ہزاروں دہشت گردوں کو کس معاہدے، کس پارلیمان کی مرضی سے کونسی نمائندگی کے ساتھ اجازت دی گئی؟ یہ پوچھنے کا حق ضرور لوگوں کو ہوگا کہ مسلم خان اور محمود خان جو سوات کے قصائی کے طور پر مشہور تھے ان کو کس نے معاف کیا؟ تو یہ سوالات پوسٹ کرنے والوں سے ضرور پوچھنا چاہیے۔

’11 جنوری کو آئی ایم ایف کا اجلاس پاکستان کے ایجنڈے پر ہے‘

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ افواہیں پھیلا رہے تھے کہ آئی ایم ایف کے بورڈ میں پاکستان کا کیس ہی نہیں ہے تو آج ہی بلومبرگ کی رپورٹ ہے کہ 11 جنوری کو ان کا اجلاس پاکستان کے ایجنڈے پر ہے تو ہمیں خوشی ہے کہ ملک معاشی استحکام کی طرف جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کی صورتحال دن بدن بہتر ہوتی جارہی ہے، جس حال میں ملک ملا، اس سے بہتر حالت میں چھوڑ کر جائیں گے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ آج پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ میری ملاقات ’بولان چینل‘ کے حوالے سے ہمیں موصول ہونے والی شکایتوں سے متعلق تھی، ٹیرسٹریئل براڈکاسٹنگ جس کو کہتے ہیں، انٹینا سے عام آدمی دور دراز علاقوں میں دیکھ سکے، اس حوالے سے بھی اجلاس میں گفتگو ہوئی کہ ہم اس کو اب یقینی بنائیں گے، اس کے دو تین راستے ہیں ان پر آج ہم نے انجینئرز سے گفتگو کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اسلام آباد واپس جاؤں گا تو ان آپشنز میں سے جو بہتر راستہ ہوگا اس کو اختیار کرتے ہوئے اس کو یقینی بنائیں گے کہ پی ٹی وی بولان کی جو نشریات ہیں، بلوچستان میں پی ٹی وی بولان کی نشریات کو ٹیرسٹریئل ایئر کے اوپر سے براڈکاسٹنگ کے ذریعے ممکن بنائیں۔

نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ آج ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان جو کہ تاریخی اعتبار سے متنوع صوبہ ہے جہاں کی لاثانی اور ثقافتی متنوع ہی اس کی خوبصورتی ہے، پی ٹی وی بولان پر پہلے ہی بلوچی، پشتو اور براہوی میں پروگرامنگ ہوتی ہے تو اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 17 دسمبر سے ان شاللہ ہم پی ٹی وی بولان پر ہزارگی زبان میں بھی اپنی نشریات شروع کریں گے اور آہستہ آہستہ ہم کوشش کریں گے کہ پی ٹی وی بولان کی جو تکنیکی اور انسانی وسائل کی ضروریات ہیں اس کو پورا کریں تاکہ چند گھنٹے نہیں بلکہ 24 گھنٹے پی ٹی وی بولان کی براڈکاسٹنگ ہوسکے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ کوئٹہ پریس کلب کے کچھ معاملات بھی میرے سامنے رکھے گئے تو اس حوالے سے اس محدود اختیار اور محدود مدت کی حکومت کے بس میں جو کچھ بھی ہوگا وہ ہم کریں گے تاکہ بلوچستان کے صحافیوں کے مسائل پر بھی کچھ کیا جاسکے اور وفاق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

’8 فروری کو ملک میں انتخابات ضرور ہوں گے‘

الیکشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا عہد ہے کہ ایک آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو، اس سلسلے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے، ان شااللہ 8 فروری 2024 بروز جمعرات ملک میں انتخابات ضرور ہوں گے، مسائل ضرور ہیں، مشکلات ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی جو بھی ضروریات ہوں گی چاہے وہ مالی ہوں، انتظامی ہوں یا سیکیورٹی کی ہوں، ان کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس تاریخی فریضے کو سرانجام دے گی کیونکہ یہ آئین میں لکھا ہے کہ یہ ملک اس کے منتخب نمائندے چلائیں گے تو اب وہ دن زیادہ دور نہیں۔

نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب انتخابات ہوتے ہیں تو ہر جماعت اپنے حصے کے لیے سیاست کرتی ہے اور کوشش کرتے ہیں کہ ہم زیادہ حقدار ہیں اور پاکستان کے سیاسی کلچر میں مظلوم اور شکایتیں کرنے والے جو ہیں وہ ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی لیے تمام جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی ہیں اور وہ ایک دوسرے پر طعنہ زنی بھی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طعنہ زنی میں ہم اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتے، اس ریس میں ہمارا کوئی گھوڑا نہیں ہے لیکن یہ شکایت جمہوریت کے اندر ہوتی ہیں اور جمہوریت میں شور ہوتا ہے خاموشی نہیں ہوتی۔

صرف حکومت نہیں جعلی مقدمات کے ذمہ داروں کا احتساب بھی چاہتے ہیں، نواز شریف

’ان فلیمز‘ کی ایک اور کامیابی، نامور ستاروں کی سعودی فلم فیسٹیول میں شرکت

آسٹریلیا کے خلاف وارم اپ میچ: کپتان شان مسعود کی ناقابل شکست ڈبل سنچری