پاکستان

شہزاد اکبر پر حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں، ترجمان دفتر خارجہ

بیرون ملک اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنانا ہماری پالیسی نہیں، امید ہے برطانیہ مجرموں کی شناخت کر کے قانون کے مطابق نمٹے گا، ممتاز زہرہ بلوچ

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر پر برطانیہ میں کیے گئے گھناؤنے حملے میں پاکستان اور پاکستانی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے کسی بھی دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور بیرون ملک اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنانا ہماری پالیسی نہیں ہے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستانی شہری جہاں بھی ہوں ان کی حفاظت اور تحفظ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی شہزاد اکبر پر مبینہ حملے سے متعلق خبر دیکھی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مقامی پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے اور ابھی تک شہزاد اکبر نے اس حوالے سے پاکستانی ہائی کمیشن سے کوئی مدد یا معاونت طلب نہیں کی۔

ترجمان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم اس طرح کے گھناؤنے حملے میں پاکستان اور پاکستانی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے کسی بھی دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور بیرون ملک اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنانا ہماری پالیسی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے سیاسی مخالفین نے سیاسی طور پر پناہ لی ہے اور وہ کئی دہائیوں سے برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم ہیں اور وہ پاکستانی حکومت اور اداروں کو اکثر و بیشتر بے جا تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاکستان کے اندر دہشت گرد اداروں سے تعلقات تھے لیکن پاکستان ایسے افراد کے خلاف سرحد پار علاقائی حملے میں کبھی ملوث نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مکمل اعتماد ہے اور امید ہے کہ اس معاملے میں مجرموں کی شناخت اور برطانیہ کے قانون کے مطابق ان سے نمٹا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے کی تحقیقات پر گہری نظر رکھے گا اور اگر برطانیہ اس حوالے سے کسی قسم کی معلومات شیئر کتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔

ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کی جانب سے ان کی موکل کو گوانتاناموبے میں جنسی پتشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے سوال پر ممتازہ زہرہ بلوچ نے کہا کہ عافیہ صدیقی کے وکیل نے جو بیانات دیے ہیں وہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور حکومت پاکستان انہیں بہت سنجیدگی سے لیتی ہے، وزیراعظم پاکستان نے ہدایت کی ہے کہ حکومت پاکستان اس معاملے کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ اس سے نمٹنے کے لیے امریکی حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے کو امریکی محکمہ خارجہ کے سامنے اٹھائیں گے کہ وہ معاملے کی چھان بین کر کے ہمارے ساتھ اس کے نتائج شیئر کرے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ماضی میں بھی ہم نے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ انصاف کے ساتھ ساتھ گوانتاناموبے کے جیل حکام سے بارہا درخواست کی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کسی قسم کے جسمانی یا ذہنی تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔

غزہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے غزہ میں سلامتی کی سنگین صورتحال اور انسانی تباہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توجہ دلانے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے تحت سیکریٹری جنرل کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور ان کا یہ فیصلہ غزہ کی تباہ کن صورتحال کے بارے میں ان کے دانشمندانہ اندازے کو ظاہر کرتا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کی جانب سے طاقت کے مسلسل استعمال اور شہریوں اور شہری تنصیبات اور انفراسٹرکچر پر اندھا دھند گولہ باری کو بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے محصور عوام نے جن مصائب اور اجتماعی عذاب کا سامنا کیا ہے وہ ناقابل قبول ہے، فلسطین اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے ممکنہ طور پر ناقابل واپسی مضمرات کے ساتھ صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے اور اس طرح کے نتائج سے ہر صورت بچنا چاہیے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید کہا کہ ہم موجودہ صورتحال کے خاتمے اور انسانی تباہی کو روکنے کے لیے سیکریٹری جنرل کی جانب سے کی گئی اپیل میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنے چارٹر کے تحت بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی نافذ کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کے حامیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل پر زور دیں کہ وہ غزہ کے خلاف اپنے وحشیانہ حملے اور غیر انسانی محاصرہ ختم کرے اور ہم مسئلہ فلسطین پر طویل المدتی امن کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیرکے مستقبل سے متعلق قانون سازی کے فیصلہ کو بھارتی قبضہ کو برقرار رکھنے اور جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنے کا ایک اور فریب قرار دیا ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک متنازع علاقہ ہے جس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا ہے، اس حوالے سے کوئی بھی دوسرا عمل کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا متبادل نہیں بن سکتا۔