سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کا مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان
سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد خان مزاری سمیت متعدد سیاسی شخصیات مسلم لیگ (ن) شامل ہو گئیں۔
انہوں نے یہ اعلان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ہر حلقے سے پارٹی ٹکٹس کے لیے 6 سے 8 درخواستیں آئی ہیں، ہر حلقے سے ایک، ایک امیدوار حصہ لے گا، انٹرویوز مکمل ہوتے ہی امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا جائےگا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ آج ضلع جھنگ کے لیے امیدواروں کے انٹرویوز مکمل کیے گئے، جھنگ سے کچھ مزید معزز اراکین مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نو مئی کے ذمہ داروں کو الیکشن میں لے جاکر سزا سے بچانا چاہتی ہے ایسے عناصر کو کسی صورت بچنے نہیں دیں گے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آج ہم نے ضلع جھنگ کو مکمل کیا ہے،کچھ افراد کا باضابطہ طور پر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے نقطہ نظر سے جھنگ کا ضلع 2018 کے الیکشن میں خالی تھا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ این اے 110 سے مولانا آصف معاویہ، بابر سیال، پی پی 125 سے نیلم سیال مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئیں۔
انہوں نے کہا کہ پی پی 129 سے خالد غنی، پی پی 131 سے فیصل حیات جبوانہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ این اے 189 سے سردار ریاض خان مزاری، پی پی 297 سے دوست محمد خان مزاری مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے۔
خیال رہے کہ دوست محمد مزاری 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور انہیں ڈپٹی اسپیکر بنایا گیا تھا۔
دوست محمد مزاری کی پی ٹی آئی کے ساتھ اختلافات اپریل 2022 میں اس وقت شروع ہوئے جب پنجاب میں عثمان بزدار کے استعفے کے بعد نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہو رہا تھا۔
پی ٹی آئی نے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جبکہ پنجاب اسمبلی میں ان پر کے خلاف بدترین احتجاج کرتے ہوئے لوٹے اچھالے گئے تھے۔
بعد ازاں جولائی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین اسمبلی کے ووٹ مسترد کر دیے تھے اور اس سلسلے میں پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔
چوہدری پرویز الہٰی نے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ان کی رولنگ مسترد کردی تھی۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلے میں کہا تھا کہ پرویز الہٰی کی درخواست منظور کی جاتی ہے اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح درست نہیں کی گئی اس لیے یہ برقرار نہیں رہ سکتی۔
فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پرویز الہیٰ، وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں اور چیف سیکریٹری پرویز الہٰی کی وزیر اعلیٰ تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔
اس کے بعد پی ٹی آئی نے پنجاب اسمبلی میں نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کردیا تھا اور دوست محمد مزاری کو ڈپٹی اسپیکر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔