امریکا، افغانستان کی جیلوں میں عافیہ صدیقی کا ریپ کیا گیا، وکیل کلائیو اسٹیفورڈ
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو اسٹیفورڈ نے انکشاف کیا کہ امریکا اور افغانستان کی جیلوں میں عافیہ صدیقی کا ریپ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی جیل کے قیدیوں کے ہاتھوں ان گنت بار جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی، عافیہ کو جیل کے گارڈز نے 2 بار ریپ کا نشانہ بنایا، انہوں نے بتایا کہ بگرام میں تفتیشی حربے کے طور پر عافیہ صدیقی کا ریپ کیا گیا۔
عافیہ صدیقی کے وکیل نے کہا کہ ایک امریکی کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے میں اس بات پر شرمندہ ہوں جو ہمارے جیل کے نظام نے عافیہ کے ساتھ کیا، میں نے عافیہ کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی سے متعلق رپورٹ بھی جمع کروائی ہے۔
کلائیو اسٹیفورڈ کا کہنا تھا کہ جو سلوک عافیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ جنسی بدسلوکی کے لحاظ سے ناقابل بیان ہے، عافیہ نے مجھے تفصیل سے بتایا ہے کہ ان کے ساتھ کس طرح جنسی استحصال کیا گیا، عافیہ کو جو ساری شکایات ہیں وہ ساری انتہائی تشویشناک ہیں اور سب سچ ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت امریکی جیلوں میں 10 ہزار 250 خواتین ہیں، ان تمام خواتین میں سے جس خاتون کے ساتھ سب سے زیادہ برا سلوک کیا گیا وہ عافیہ ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ ایف ایم سی کار سویل میں عافیہ کا ریپ کیا گیا۔
صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جیل کے محافظوں کی جانب سے کم از کم 2 بار لیکن دوسرے قیدیوں کی جانب سے ان گنت بار عافیہ صدیقی کا ریپ کیا گیا۔
صحافی نے پوچھا کہ کیا حکومتِ پاکستان کو معلوم تھا کہ عافیہ صدیقی کا ریپ ہوچکا ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی، میں نے حکومتِ پاکستان کو عافیہ کے ساتھ ہونے والے ریپ کے بارے میں بتایا ہے اور میں یقینی طور پر انہیں تمام لرزہ خیز تفصیلات سے بھی آگاہ کروں گا، یہ عافیہ صدیقی کی حکومت ہے، عافیہ کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں جو کرسکتا ہوں وہ کر رہا ہوں، میں ایک امریکی ہوں اور عافیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں لیکن بالآخر یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے، یہ حکومتِ پاکستان کی ناکامی ہے کہ وہ عافیہ کو واپس نہیں لاپائی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہم یہاں دیکھ رہے ہیں اس کے مطابق یہ صرف عافیہ کی مدد کے لیے ضروری وسائل استعمال کرنے اور ہر ممکن اقدام اٹھانے میں ناکامی کا نتیجہ ہے، عافیہ کا معامہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے، حکومتِ پاکستان کو امریکا کے ساتھ عافیہ کے معاملے کو ترجیح بنانا ہوگا۔
عافیہ صدیقی کے خلاف کیس
عافیہ صدیقی کو 2010 میں ایک امریکی وفاقی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی حراست میں تھیں، اس وقت فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ 6 دیگر الزامات کے تحت انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔
ان کے وکلا نے 12 سال کی سزا کی درخواست کی تھی جب کہ استغاثہ نے عمر قید کی سزا کے لیے دلائل دیے تھے۔
2009 میں ایک جیوری نے انہیں 7 الزامات پر مجرم قرار دیا تھا جن میں قتل کی کوشش کے 2 الزامات بھی شامل تھے، جیوری نے قرار دیا تھا کہ قتل کی کوشش کے الزامات میں کوئی پیشگی ارادہ نہیں تھا۔
استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی رائفل سے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عافیہ صدیقی نے بیان دیا تھا کہ وہ صرف کمرے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں، اس وقت وہ کسی خفیہ جیل میں منتقل کیے جانے کے خوف میں مبتلا تھیں۔
عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں امریکی تحویل میں منتقل کر دیا تھا، تاہم امریکی اور پاکستانی حکام دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔
عافیہ صدیقی نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور برینڈیز یونیورسٹی سے حیاتیات اور نیورو سائنس میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں جب کہ وہ 1991 اور جون 2002 کے درمیان امریکا میں مقیم رہیں، انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہتھیار پکڑنے یا اسلحے کے استعمال سے واقفیت رکھنے سے انکار کیا تھا۔
افغانستان میں دریافت ہونے سے قبل وہ مبینہ طور پر 5 سال تک لاپتا رہی تھیں۔