امن و امان کی خراب صورتحال، گورنر خیبرپختونخوا نے صوبے میں سیاسی سرگرمیوں کو مشکل قرار دے دیا
خیبرپختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث صوبے کے بعض علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کو مشکل قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے مختلف مقدمات میں مطلوب رہنماؤں کو جلسوں کی اجازت نہ دینے کا عندیہ بھی دے دیا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا ’رخ میں‘ اینکر پرسن نادر گرامانی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
گورنر حاجی غلام علی نے پی ٹی آئی کے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے الزامات کو مسترد کردیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس وقت کالعدم تحرک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) خیبرپختونخوا میں کتنی متحرک ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے، ٹانک، ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں اور بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ انتخابات پرامن ہونے چاہئیں، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ووٹر ووٹ ڈالنے جائے اور اپنی جان ہی کھو دے، ایک ذمہ دار عہدے پر بیٹھا ہوں، اس لیے بس اتنا ہی کہوں گا کہ صوبائی حکومت اگر محسوس کرے تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے رکھے۔
حاجی غلام علی نے کہا کہ صوبے کے کچھ علاقوں میں الیکشن شاید ہوجائے لیکن سیاسی سرگرمیاں انجام دینا مشکل ہوں، ٹانک، وزیرستان، بنوں، لکی مروت مروت میں سیاسی سرگرمیاں مشکل ہوں، اس طرح کے علاقے بلوچستان میں بھی ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے قبل کرم ایجنسی میں 15، 16 لوگ آپس کے جھگڑے میں مارے گئے، اس طرح کے واقعات تقریباً ہفتے مہینے میں ہوتے ہیں، اس پر حکومت اور ادارے بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں گے اور الیکشن کمیشن کو بتائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن پر چار پانچ حملے ہوچکے ہیں، اس طرح کی رپورٹس ہمیں موصول نہیں ہوتیں لیکن ہوسکتا ہے اس طرح کی اطلاعات وزیر داخلہ کے پاس ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں گورنر خیبر پختونخوا نے سوال اٹھایا کہ تحریک انصاف کے جن رہنماؤں پر مقدمات ہیں وہ کیسے اسٹیج پر کھڑے ہوکر تقاریر کریں گے؟ جن رہنماؤں پر الزامات ہیں، وہ عدالتوں میں پیش ہوں اور الزامات سے بری ہو کر آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے عمل کو مشکوک بنانا کسی کے لیے اچھا نہیں ہے، لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اعتراضات درست نہیں ہیں، حال ہی میں انہوں نے اتنے جلسے کیے ہیں، انتخابات کا شیڈول جاری ہونے سے قبل ہی لیول پلیئنگ فیلڈ پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی مختلف حلقے ملک میں امن و امان خراب صورتحال کے باعث الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں جب کہ گزشتہ ماہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں اور دہشت گرد حملوں میں 34 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ نومبر کے دوران عسکریت پسندوں نے کُل 63 حملے کیے جس کے نتیجے میں 83 اموات ہوئیں، جن میں سیکیورٹی فورسز کے 37 اہلکار اور 33 شہری بھی شامل تھے، مزید برآں 89 افراد زخمی ہوئے جن میں 53 عام شہری اور 36 سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔
اکتوبر کے اعداد و شمار کے ساتھ ایک تقابلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ نومبر کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں 34 فیصد اضافہ، اموات میں 63 فیصد اضافہ اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد میں 89 فیصد اضافہ ہوا۔
پی آئی سی ایس ایس کے ڈیٹابیس کے مطابق 2023 کے 11 ماہ میں مجموعی طور پر 599 عسکریت پسند حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں 897 اموات ہوئیں اور ایک ہزار 241 افراد زخمی ہوئے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس عسکریت پسندوں کے حملوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا، ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں 86 فیصد اضافہ اور زخمیوں کی تعداد میں 64 فیصد اضافہ ہوا۔