پاکستان

اراکین اسمبلی کے اثاثوں کی معلومات تک محدود رسائی، انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان

الیکشن کمیشن اراکین اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے گئے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں کو ڈیجیٹلائز کرنے اور اپ لوڈ کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان اراکین اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے گئے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں کو ڈیجیٹلائز کرنے اور اپ لوڈ کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی اور وفاقی اسمبلی کے اراکین کی جانب سے جمع کرائے گئے غیرحقیقی گوشواروں کے بارے میں بھی معلومات تک رسائی اور شفافیت کو الیکشن کمیشن محدود کر رہا ہے۔

الیکشن کمیشن فی الحال صرف پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں کی طرف سے جمع کرائے گئے گوشوارے ہی ادائیگیوں کے عوض کتابی شکل میں فراہم کرتا ہے، این جی اوز اور سیاسی میدان میں سرگرم قانونی فرمز وغیرہ کے علاوہ صرف صحافی ہی انہیں حاصل کرسکتے ہیں لیکن یہ عمل شفافیت کی کمی اور عوامی نمائندوں کے متضاد بیانات کی جانچ پڑتال کے لیے عام شہریوں کی ناقص رسائی کا سبب بنتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے میں شفافیت ہی مثبت سمت میں آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے جس سے خواتین، غیر مسلم برادری اور خواجہ سرا طبقے کو بھی انتخابی دوڑ میں شامل ہونے کا موقع مل سکے گا کیونکہ یہ طبقے روایتی سیاسی خاندانوں کی طرح امیر نہیں ہوتے۔

پاکستان میں گڈ گورننس اور منصفانہ انتخابات کے لیے ایک خود مختار ادارہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے نظام میں شفافیت شامل کرنے کے لیے کچھ قانون سازوں کے بیانات اپ لوڈ کیے ہیں۔

فافن کے ترجمان راشد چوہدری نے کہا کہ اثاثوں کے گوشوارے کو عوام کے لیے زیادہ قابل رسائی بنانے سے بالآخر اس موضوع پر بحث اور گفتگو میں اضافہ ہوگا اور چاہے یہ الیکشن کمیشن کے ذریعے ہی ہو لیکن لوگ اس کی مدد سے بنیادی جانچ کر سکیں گے۔

راشد چوہدری نے کہا کہ اراکین اسمبلی کے اثاثوں کو مزید شفاف بنانے سے پاکستان کے لوگوں کی اکثریت بااختیار بنے گی جن میں خواتین، خواجہ سرا اور خصوصی ضروریات کے حامل افراد بھی شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ ممالک جیسی جدید جمہوریتیں پہلے ہی نظام میں شفافیت کے ذریعے ’ایلیٹ کیپچر سنڈروم‘ سے نکل چکی ہیں۔

یہ اقدام بالآخر سیاست دانوں کو انتخابی عمل کے دوران ہونے والے اخراجات کے حوالے سے حقیقت پسندانہ روش اختیار کرنے پر مجبور کرے گا اور اس طرح عوامی دباؤ کی وجہ سے پیسے کی سیاست کم ہو جائے گی اور نئے آنے والوں کو قانونی حدود سے بڑھ کر اُن کے اخراجات کو چیلنج کرنے کا موقع ملے گا۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین اور غیر مسلموں کو عام نشستوں پر ٹکٹ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیٹ جیتنے کے لیے بھاری اخراجات کا کلچر ہے اور جیتنے والے عموماً ایوان میں پہنچ کر یہ رقم وصول کرلیتے ہیں۔

فافن کے ترجمان نے کہا کہ اس اقدام سے یہ بھی زیادہ شفافیت کے ساتھ واضح ہو جائے گا کہ کچھ خاندانوں کے مستقل سیاست میں رہنے کی ایک وجہ سیاسی نظام کی بدولت ان کی مالی ترقی ہے۔

الیکشن کمیشن کو باقاعدہ طور پر یہ سوال بھیجا گیا کہ اثاثوں کے گوشوارے اس کی ویب سائٹ پر کیوں اپ لوڈ نہیں کیے گئے؟ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

قانونی رکاوٹ

دوسری جانب نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک افسر نے بتایا کہ قانون انہیں ڈیجیٹل کاپیاں تقسیم کرنے یا قانون سازوں کی طرف سے جمع کرائے گئے اثاثوں کے گوشوارے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

افسر نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے ہی اراکین اسمبلی کی جانب سے دباؤ میں ہیں جو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تفصیلات کی ہارڈ کاپیاں میڈیا کو بھی نہ دی جائیں۔

الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 138 ’اثاثوں اور واجبات کے گوشوارے کی اشاعت‘ کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ یہ بھی کہتا ہے کہ مقررہ فیس کی ادائیگی پر انہیں کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔

فی الحال فیس 10 روپے فی صفحہ ہے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے تمام اراکین سمیت پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں کے ارکان کی جانب سے جمع کرائے گئے گوشوارے کے مکمل سیٹ کی قیمت 40 ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت سے اختلافات پر اپنی نشست سے استعفیٰ دینے والے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ نظام کو اچھے طریقے سے بدلے اور اسے عام شہریوں کے لیے آسان اور شفاف بنائے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس قانون کے تحت اختیارات ہیں، جمہوری عمل میں مزید شفافیت لانے کے لیے اس طرح کی تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ نظام الیکٹیبلز کے حق میں ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین، غیر مسلم امیدواروں یا غریب طبقے کے بجائے الیکٹیبلز کو راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب اثاثوں کے گوشوارے اپ لوڈ کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے نظام میں مزید شفافیت آئے گی اور اس کے نتیجے میں یہ بات سب پر واضح ہو جائے گی کہ الیکشن لڑنا زیادہ تر لوگوں کی استطاعت سے باہر ہے۔

پاکستان اور جی سی سی ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے پر دستخط کے امکانات روشن

میاں بیوی کے درمیان اچھا تعلق قائم نہ ہو تو عزت کے ساتھ راہیں جدا کرلیں، طوبیٰ انوار

نیوزی لینڈ کے دارالحکومت میں 150 سال بعد کیوی کے ہاں بچوں کی پیدائش