چلاس میں دہشت گردوں کی بس پر فائرنگ، 9 مسافر جاں بحق
صوبہ گلگت بلتستان کے شہر چلاس میں دہشت گردوں کی مسافر بس پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 9 افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہو گئے۔
ڈپٹی کمشنر دیامر کیپٹن ریٹائرڈ عارف احمد نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ واقعہ ہفتہ کی شام ساڑھے چھ بجے پیش آیا جب نامعلوم مسلح ملزمان نے نجی کمپنی کے-ٹو موورز کی بس پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
انہوں نے کہا کہ واقعے میں 9 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 25 افراد زخمی ہوئے جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بس گزر میں گاہکچ سے روانہ ہوئی جس کو بزدلانہ حملے میں نشانہ بنایا گیا اور فائرنگ کی وجہ سے بس سامنے سے آنے والے ٹرک سے ٹکرا گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ مرنے والوں میں سے پانچ کی لاشوں کی شناخت ہو گئی ہے جبکہ تین کی شناخت ہونا باقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بس میں سوار مسافروں کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہے، یہ مسافر کوہستان، پشاور، گذر، چلاس، روندو، اسکردو، مانسہرہ، صوابی سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ایک سے دو مسافروں کا تعلق صوبہ سندھ سے بھی تھا۔
ڈی سی عارف احمد نے کہا کہ اس بزدلانہ کارروائی میں پاک فوج کے دو جوان بھی شہید ہوئے جبکہ اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کا اہلکار بھی زخمی ہوا۔
دیامر کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سردار شہریار نے بتایا کہ جائے حادثہ پر سب سے پہلے پولیس افسران پہنچے تھے جنہوں نے جاں بحق اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بس سے ٹکرانے والے ٹرک میں بھی آگ لگ گئی اور اس کا ڈرائیور بھی جاں بحق ہو گیا۔
سردار شہریار نے کہا کہ وہاں موجود باقی کاروں کو محفوظ رکھا گیا اور ایک قافلے کی شکل میں وہاں سے منتقل کردیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ واقعے کے حوالے سے شواہد اکٹھا کرنے اور مزید تحقیقات کے لیے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر محفوظ کر لیا گیا ہے۔
ابھی تک کسی بھی دہشت گرد یا کالعدم تنظیم کے ساتھ ساتھ کسی بھی گروپ نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی دہشت گرد حملے کی مذمت، تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے دیامر میں مسافر بس پربزدلانہ دہشت گردی کے حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے اور حملے میں ملوث دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور قانون کے کٹہرے میں لا کر سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مجرمان کی گرفتاری کے لیے حکومت اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائے گی اور حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کے تمام اخراجات حکومت گلگت بلتستان ادا کرے گی اور بہتر طبی سہولیات کو یقینی بنائے گی جس کے لیے متعلقہ محکموں کو ہدایات دے دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجرموں کی فوری گرفتاری کے احکامات دے دیے گئے ہیں جس کی نگرانی آئی جی گلگت بلتستان کررہے ہیں ۔
حاجی گلبر خان نے شہدا اور زخمیوں کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں حکومت گلگت بلتستان لواحقین کے ساتھ ہے، ہم شہدا کا خون رائیگاں جانے نہیں دیں گے اور تمام قاتلوں کو ہر صورت قانون کہ گرفت میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں امن کے قیام کے لیے صوبائی حکومت ہر ممکن اقدامات کو بروئے کار لارہی ہے اور کسی کو بھی امن سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
واضح رہے کہ گلگت بلتستان سمیت پاکستان بھر میں اس سے قبل بھی مسافر بس پر نامعلوم افراد اور دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
مارچ 2021 میں گلگت بلتستان کی وادی نلتر میں نامعلوم مسلح افراد کی ایک مسافر وین پر فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق اور 7 زخمی ہوگئے تھے۔
اس سے قبل قبل 28ستمبر 2019 میں خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں نامعلوم افراد کی مسافر بس پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 6 افراد جاں بحق اور چھ زخمی ہو گئے تھے۔
اس سلسلے میں سب سے ہولناک واقعہ اپریل 2019 میں پیش آیا تھا جب صوبہ بلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی وے کے قریب مسلح افراد نے 14 مسافروں کو بسوں سے اتار کر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
اس سے قبل نومبر 2012 میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں مسافر وین پر نامعلوم مسلح دہشت گردوں کی فائرنگ کے بعد وین میں آگ بھڑک اُٹھی تھی جس میں 18افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
کوہستان جیسا ہی ہولناک واقعہ 2012 میں بھی پیش آیا تھا جب خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں مسلح افراد نے راولپنڈی سے گلگت جانے والی ویگن پر فائرنگ کر کے اٹھارہ افراد کو قتل کردیا تھا۔
ویگن کو روک کر اس میں سوار مسافروں کو باہر نکال کر گولیاں ماری گئی تھیں اور فائرنگ سے قبل حملہ آوروں نے مسافروں کے شناختی کارڈ بھی چیک کیے تھے۔