اسمبلی میں موجود آوازیں علیحدگی پسندوں کا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں، وزیر داخلہ
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پنجاب اور ہماری اسمبلی میں علیحدگی پسندوں کے پراپیگنڈے کا بہت زیادہ اثر ہے، ہمارے ایوان میں علیحدگی پسندوں کی جائز آوازیں موجود ہیں جو ان کا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں بات کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک کے خلاف ایک انٹیلی جنس پر مبنی جنگ ہورہی ہے جس کی قیادت را کر رہی ہے، یہ ایک مکمل جنگ ہے جس کی مثال کلبھوشن یاود اور دیگر بھارتی نیٹ ورکس کا یہاں پکڑے جانا ہے تو اس جنگ کے لیے آپ کو جائز آوازیں بھی درکار ہیں، پراپیگنڈہ بھی کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پراپیگنڈہ کرنے کے لیے آپ کو دو چیزیں چاہئیں، ایک اُس ملک میں جائز آوازیں ہیں تو ہماری اسمبلی میں علیحدگی پسندوں کی جائز آوازیں موجود ہیں جو علیحدگی پسندوں کا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں، بدقسمتی سے پنجاب میں اور ہماری اسمبلی میں ان کے پراپیگنڈے کا بہت زیادہ اثر ہے یہاں تک کہ میں اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ آپ بڑے اچھے مقتول ہیں، جو آپ کو قتل کرتا ہے آپ اس کی بڑی عزت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بغاوت ایک علیحدہ باب ہے، کسی بھی بغاوت کو کامیاب اور اسے زندہ رکھنے کے لیے وہ نوجوان چاہیے ہوتے ہیں جن کا آپ استعمال کر سکیں، بلوچستان میں ایسے نوجوان آسانی سے مل جاتے ہیں، دوسری چیز جو چاہیے وہ یہ ہے کہ سپلائی چین نہ رکے اور جو فورس اس کو روکنے کے لیے کام کر رہی اس کو بدنام کردیں۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ مثال کے طور پر پنجابیوں کو بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کے شہید کیا جاتا ہے، 5ہزار لوگوں کو وہاں قتل کیا گیا، جو صدیوں سے ہمارے ساتھ رہتے تھے، ہمارے بھائی تھے، ہماری طرح کا کلچر تھا، ہماری زبانیں بولتے تھے، ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کو مارا کیا گیا، کتنے ڈاکٹرز پروفیسرز کو مارا گیا کبھی ان پر کوئی بات کیوں نہیں ہوئی؟
انہوں نے پوچھا کہ کریمہ بلوچ کی موت کا آپ کو پتا ہوگا، مظاہرے بھی ہوئے مگر پروفیسر ناظمہ طالب نے 30سال بلوچستان کے بچوں کو ہوم اکنامکس پڑھائی پر ان کو 9 اپریل 2009 کو شہید کردیا گیا، اس کا نہیں پتا ہوگا، کیوں؟ ہم اس ملک میں تشدد کے خلاف دو طرح کا رویہ کیوں اپناتے ہیں؟ جو مذہب کے نام پر تشدد کیا جاتا ہے اس کو ہم دہشت گردی کہتے ہیں مگر قوم پرستی کے نام پر تشدد کو ہم جائز کیوں سمجھتے ہیں؟ وہ اس لیے کیونکہ پاکستان کے اسٹوری ٹیلرز کے مقابلے ریاست کے خلاف دوسرے فریق کا پراپیگنڈہ زیادہ ہے، ان کی جائز آوازیں یہاں بہت زیادہ ہیں۔
فیض آباددھرنا کیس میں جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کو عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے یہی پاکستان کے لیے بہتر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ماضی میں ہی گھسے رہیں گے تو ہم اس مقام تک شاید نا پہنچ سکیں جن کا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا، ان کو بلانا پاکستان کو کتنا سود مند ہوگا یہ دیکھنا پڑے گا۔
لاپتا افراد سے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ بہت خطرناک ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ لاپتا افراد کا اکاؤنٹ بہت پیچیدہ اور خطرناک ہے، پھر ہمارے پاس لاپتا افراد کا ایک کمیشن بنا ہے، اس نے 86.87 فیصد کے قریب کیسز حل کیے ہیں، اتنا بڑا کام کیا ہے، اب جو لوگ رہ گئے ہیں ظاہر ہے کمیشن ان کے کیسز بھی سنے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کا مسئلہ ہے اور جو آپ تعداد کی بات کرتے ہیں تو پورے خطے میں سب سے کم لاپتہ افراد کی تعداد پاکستان میں ہے۔
افغان مہاجرین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 4 لاکھ سے زائد لوگ ملک سے واپس جا چکے ہیں، ہمارے پاس غیر قانونی طور پر افغان ہی رہ رہے تھے، وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم ان کو کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں رہنا ہے تو ہمارے دروازے پر دستک دیں، ہم آپ کو ویزہ دیں گے، آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو خوش آمدید کہیں گے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ہماری چار دیواری پھلانگ کے آجائیں اور ہم آپ کی حیثیت مہمان کی ہی رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ بنوں واقعے میں تو افغان شہری ملوث تھا، 24 حملوں میں سے 14 حملے افغان شہریوں نے کیے، میانوالی والے کی ابھی تحقیقات ہونی ہے، حتمی بات بنوں واقعہ ہے اور کیا میرے ملک کا یہ اختیار نہیں ہےکہ جو اس ملک میں آئے وہ سفری دستاویز کے ساتھ آئے۔
عمران خان کو لاڈلہ کہنے کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے بتایا کہ میرا ایسا کہنے کا پس منظر یہ تھا کہ ایسا پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا کہ ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہو اور پھر عدلیہ نے اس کا نوٹس لے کر ان کو گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا ہو، پھر ان کے گھر والوں کو بھی ٹھہرادیا اور ساتھ ساتھ ان کے خیر خواہوں کو بھی ٹھہرانے کی اجازت دے دی اور پھر مرسیڈیز کار میں ان کو لے کر آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں نائس ٹو سی یو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ہوا کہ وہ جیپ میں جاتے تھے اور جیپ میں بیٹھ کے ہی ان کی حاضری لگ جاتی تھے، کسی عام پاکستانی کے لیے ایسا نہیں ہوتا کہ وہ عدالت جائے اور انگوٹھا لگا کر واپس آجائے، عدالت اس کی شکل لازمی دیکھتی ہے تو وہ بدقسمتی سے نہیں ہوا۔
تحریک انصاف کو دیوارسے لگانے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو چیئرمین شپ سے ہٹانا ان کی جماعت کا فیصلہ تھا ہمارا نہیں، ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن ایک چیز کے حوالے سے میں بہت واضح ہوں کہ 9مئی کے واقعے سے متعلق میرے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کے نیوکلیئس پر حملہ تھا۔
آڈیو لیک کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے، لوگ موبائل فون میں ریکارڈ کرنے کا آپشن رکھتے ہیں، اب اکاؤنٹس ہیک ہوتے ہیں تو سب ہیک ہوجاتا ہے لیکن اس میں حکومت کا ہاتھ نہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے، سوشل میڈیا یا آزادی رائے کو روکنا غلط ہے لیکن کوئی میری دل آزاری کرے تو اس کو روکنا بھی تو کسی کا فرض ہے نا، اس ملک میں ایسے قوانین ہے کہ اگر میں آپ کو باہر کھڑے ہوکر تھریٹ کروں تو اس پر ایف ائی آر درج ہوسکتی ہے لیکن اگر آپ وہاں ہی میرے سامنے کھڑے ہوکر مجھے موبائل پر دھمکی دیں گے تو میں ایف آئی آر نہیں کٹوا سکتا تو ان چیزوں کو ریگولرائز کرنے کی ضرورت ہے، اب جرم سائبر کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
ایک سیاسی سوال کے جواب پر سرفراز بگٹی نے کہا کہ سیاست دینے اور لینے کا نام ہے، ہر جماعت کا اپنا نظریہ ہوتا ہے، لوگ مختلف سوچوں سے گزرتے ہیں اور اپنا مفاد دیکھتے ہیں، جو الیکٹیبلز ہیں وہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں، جو سیاسی جماعتیں اتحادی ہوتی ہیں وہ اپنا مفاد دیکھتی ہیں، جب 16 جماعتیں مل کر 16 مہینے کی حکومت بنا سکتی ہیں تو کیا دو چار جماعتیں مل کر اکٹھے الیکشن نہیں لڑ سکتیں، اس میں کوئی اعتراض نہیں، ہمارے بہت لوگوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔