پاکستان

سندھ کابینہ کا رینجرز کو واٹر کینن و دیگر آلات خریدنے کیلئے 2 ارب روپے دینے سے انکار

رینجرز نے قابل اعتماد مواصلاتی آلات، اور اپنی کوئیک رسپانس فورس کے لیے پانی کے کینن اور گاڑیوں کی پروکیورمنٹ کے لیے 2 ارب روپے سے زائد کی درخواست دی تھی، ذرائع

صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے رینجرز کے لیے واٹر کینن، گاڑیوں اور مواصلاتی آلات کی خریداری کے لیے تقریباً 2 ارب روپے مانگنے کے برعکس سندھ کابینہ نے صوبے میں 1989 سے تعینات پیرا ملٹری فورس کی آپریشنل صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے 35 کروڑ 70 لاکھ روپے کی منظوری دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ صوبائی محکمہ داخلہ نے کابینہ کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ پیرا ملٹری فورس نے فسادات سے نمٹنے کے حوالے سے ساز و سامان طلب کیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ رینجرز نے قابل اعتماد مواصلاتی آلات، اور اپنی کوئیک رسپانس فورس کے لیے واٹر کینن اور گاڑیوں کی پروکیورمنٹ کے لیے 2 ارب سے زائد کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ آنے والے انتخابات کے پیش نظر رینجرز کو اپنی آپریشنل صلاحیت کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ کابینہ نے اس معاملے پر بحث کی اور شدید مالی بحران کے پیش نظر مطلوب فنڈز کی منظوری نہ دینے کا فیصلہ کیا۔

وزیر اعلی ہاؤس کے ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ البتہ کابینہ نےاس مقصد کے لیے 35کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کردیے۔

وفاقی فورس رینجرز 1989 سے کراچی میں تعینات ہے جب اسے آئین کے آرٹیکل 147 کے تحت پولیس کی معاونت کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا، بعد ازاں رینجرز کو کراچی ڈویژن میں پولیسنگ کے خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں اور اب ان کے پاس چھاپے مارنے اور مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار موجود ہے۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے امن و امان کی بحالی اور سول انتظامیہ کی مدد کرنے کے لیے 2005 سے 2008 تک سندھ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کی تعیناتی سے متعلق واجبات کا دعویٰ کیا تھا۔

وفاقی حکومت کی طرف سے دعوی کردہ رقم میں 14 کروڑ 95 لاکھ روپے تنخواہ اور سیکیورٹی ڈیوٹی الاؤنس کی مد میں 7 کروڑ 73 لاکھ روپے شامل ہیں، ان کی کل لاگت 22 کروڑ 69 لاکھ روپے بنتی ہے۔

کابینہ نے واجبات ختم کرنے کے لیے رقم کی منظوری دی۔

9ہزار 900 اسکولوں کی مرمت

کابینہ نے صوبے میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشن کے طور پر استعمال ہونے والی تقریباً 9ہزار 900 اسکولوں کی عمارتوں کی مرمت کے لیے 3.3 ارب روپے کی منظوری دی۔

محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے کابینہ کو بتایا گیا کہ متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ایگزیکٹو انجینئرز نے سہولیات کی فراہمی کے لیے پولنگ اسٹیشن کے طور پر استعمال کیے جانے والے اسکولوں کی نشاندہی کی ہے۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ کراچی کے 1015، حیدرآباد کے 4520 اور سکھر کے 4366 اسکولوں سمیت 9 ہزار 901 اسکولوں میں مرمت کے ساتھ ساتھ سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

9 ہزار 901 اسکولوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے تجویز کردہ بجٹ 3.3ارب روپے تیار کیا گیا تھا۔

کابینہ نے تجویز کی منظوری دے دی۔

دریں اثنا، ذرائع کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کے ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات سے قبل وہ اتنی بڑی تعداد میں اسکولوں کی مرمت اور دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیونکہ محکمہ تعلیم کی کوئی بھی اسکیم مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہو سکی۔

علاوہ ازیں، انہوں نے کہا کہ محکمہ خزانہ کی جانب سے فنڈز کے اجرا کے لیے تجویز میں 10 سے 12 دن لگیں گے اور یہ رقم کم از کم 15 دن میں محکمہ تعلیم کو منتقل کی جائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ مرمت کے کاموں کے ٹینڈر جاری کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا اور اس میں بھی کچھ وقت لگے گا، جس کے بعد عام انتخابات سے قبل اس کام کو مکمل کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہ جائے گا کیونکہ کابینہ نے پروکیورمنٹ قوانین میں کسی استثنیٰ کی منظوری نہیں دی۔

اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی ایک ہزار 46 اسامیاں

محکمہ داخلہ نے کابینہ کو بتایا کہ محکمہ پولیس نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اسسٹنٹ سب انسپکٹرز (اے ایس آئیز) کی ایک ہزار 46 آسامیوں پر عام بھرتی کے لیے ریکوزیشن بھیجی تھی۔

کابینہ نے مئی 2001 میں اپنے اجلاس میں اے ایس آئی کے عہدوں پر بھرتی کے لیے انٹرمیڈیٹ کو بنیادی تعلیمی اہلیت رکھنے فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد سے اے ایس آئی کے عہدے پر بھرتی انٹرمیڈیٹ کی بنیاد پر کی جا رہی تھی۔

کابینہ کے سامنے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ سندھ پولیس بھرتی رولز 2021 کے تحت اے ایس آئیز کی پوسٹ کے لیے مطلوبہ اہلیت گریجویشن ہے۔

کابینہ نے اے ایس آئی کے لیے قابلیت کا معیار گریجویشن کے طے کیا اور ان کی بھرتی ایس پی ایس سی کے ذریعے کی جائے گی۔

نگران کابینہ کو بتایا گیا کہ لاڑکانہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اکتوبر میں تحلیل کر دی گئی ہے۔

کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ناکارہ ایل ڈی اے کے ملازمین کو محکمہ لوکل گورنمنٹ میں بنائے جانے والے ایک اضافی پول میں بھیجا جائے گا، جو ترجیحاً ان کے آبائی ضلع میں، انہیں مختلف ونگز میں شامل کرے گا جب کوئی آسامیاں خالی ہوں گی۔

محکمہ صحت کی درخواست پر کابینہ نے ضلع سکھر کے دیہ نندو کوہستان میں تین ایکڑ زمین مفت الاٹ کرنے کی منظوری دے دی۔

محکمہ صحت اس زمین پر سندھ انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلیٹیشن کا سیٹلائٹ سینٹر قائم کرے گی۔

سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی کا ’اوپن ٹرائل‘ اڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع، سماعت پیر تک ملتوی

شہریوں سے شادی کرنے والے افغان مہاجرین کو پاکستان اوریجن کارڈز جاری کرنے کا حکم

’میرے بن جاؤ‘، انتقام لینے کیلئے لڑکی کی فحش ویڈیوز وائرل کرنے پر مبنی کہانی