بیرسٹر گوہر علی خان کی نامزدگی، تحریک انصاف میں دراڑ کی خبریں گردش کرنے لگیں
انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے بیرسٹر گوہر علی خان کی بطور چیئرمین پی ٹی آئی نامزدگی سے ایسا لگتا ہے کہ سابقہ حکومتی جماعت کے درمیان دراڑ پیدا ہوگئی ہے، جہاں کچھ رہنما اس نامزدگی کا موازنہ عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تقرری سے کر رہے ہیں، ایک ایسا فیصلہ جس کی وجہ سے عمران خان کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے ایک اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ اعلی عہدے پر گوہر خان کی نامزدگی علی محمد خان، سینیٹر ہمایوں مہمند، ایڈووکیٹ حامد خان جیسے کئی بڑے ناموں کو نظر انداز کر کے کی گئی۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن کے ساتھی بیرسٹر گوہر خان کو تقرر کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ قدم نہیں ہے، کیونکہ ان کی پیپلز پارٹی کے لیڈر سے قریبی رفاقت ہے۔
انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے عمران خان خان نے عثمان بزدار جیسا تجربہ دوبارہ کیا ہے، جو انہیں مشکل حالات میں چھوڑ گئے، پارٹی چیئرمین کا عہدہ بہت حساس ہے اور اسے پارٹی کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے بہت لوگوں کی جانب سےعمران خان کی بہنوں اور ان کی اہلیہ کے درمیان اختلافات قرار دیے جانے والی بات کی بھی تصدیق کی، انہوں نے دعوی کیا کہ جیل میں سماعت کے دوران بشری بی بی کے ساتھ مردوں کے ایک گروہ نے بدتمیزی کی اور اس کے اگلے ہی روز اسی طرح کا سلوک چیئرمین عمران خان کی بہنوں کے ساتھ بھی کیا گیا۔
بنا کسی شواہد کے انہوں نے الزام لگایا کہ ہمیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ نعروں کے پیچھے خواتین کا ہاتھ تھا۔
’پی ٹی آئی نے ٹرسٹ ڈیڈ کو پبلک کردیا‘
ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھا نے دعویٰ کیا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین کا کوئی کردار نہیں، اسی لیے انہوں نے القادر ٹرسٹ ڈیڈ کو پبلک کرنے کا کہا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ دستاویزات میڈیا پر لائی جا رہی ہیں تاکہ ان کے خلاف بنائے گئے جھوٹے مقدمے سے متعلق اصل حقائق قوم کے سامنے رکھیں جاسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ ذاتی مفادات کے لیے قائم نہیں کیا گیا، انہوں نے بتایا کہ ٹرسٹ کے بارے میں تمام فیصلے اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز لے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے مزید کہا کہ القادر ٹرسٹ بھی شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی طرز پر چل رہا ہے جس میں عمران خان کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔