’پری اکلیمپسیا‘ حاملہ خواتین کے لیے ڈراؤنا خواب
پری اکلیمپسیا (Pre Eclampsia) ایک ایسی بیماری ہے جس میں حاملہ عورت کا ہر ایک دن تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر اس کی تشخیص کی دو علامات ہیں، ایک ہائی بلڈ پریشر اور دوسرا گردوں سے خارج ہونے والی پروٹین البیومن۔
لیکن بات اتنی بھی آسان نہیں۔ پری اکلیمپسیا میں کچھ ایسے مادے جسم میں خارج ہوتے ہیں جو حاملہ عورت کے تمام اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دماغ کو برین ہیمرج کا خطرہ ہوتا ہے تو آنکھ کی بینائی بھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پھیپھڑوں میں پانی بھر جانا، ہارٹ فیل ہوجانا، جگر میں انزائمز بہت زیادہ بڑھ جانا گردوں کا فیل ہوجانا، خون میں پلیٹلیٹس کم ہوجانا، بچے کی نشوونما کم ہونا اور پیٹ میں ہی مر جانا یا آنول کا بچے کی پیدائش سے پہلے ہی پھٹ جانا اور خون خارج ہونے جیسے خطرات بھی لاحق رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید پیچیدگیوں میں ہیلپ سنڈروم اور مرگی جیسے دورے (Eclampsia) بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
یقین کیجیے کہ پری اکلیمپسیا ایک ڈراؤنا خواب ہے اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات اس کی تشخیص میں پیش آنے والی مشکلات ہیں۔ ضروری نہیں کہ پری اکلیمپسیا کی علامات اتنی ہی واضح ہوں جیسی ہم نے لکھیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گائناکالوجسٹ اس طرح سے دو اور دو چار نہ کرسکیں۔ بیماری کی تشخیص اور ہر مریض کی صورتحال ایک جیسی نہیں ہوتی۔ بلکہ ہم اسے جگسا پزل سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے گمشدہ ٹکڑے ہمیں ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔
پری اکلیمپسیا کی دو اسٹیجز ہوتی ہیں، مائلڈ اور سویئر (mild and severe)۔
جب تک پری اکلیمپسیا مائلڈ رہے، بچہ پیدا نہیں کروایا جاتا۔ حاملہ عورت کا باقاعدگی سے چیک اپ کیا جاتا ہے اور اس چیک اپ تک سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب اچھا اس چیک اپ تک ہی ہے۔ اگلے چیک اپ میں کیا سامنے آنے والا ہے، یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ یہاں سے آغاز ہوتا ہے لوگوں کی ان شکایات کا کہ جی ہم نے باقاعدگی سے چیک کروایا، ڈاکٹر کہتی رہیں سب ٹھیک ہے اور پھر ایک دم سے ایسا ہوگیا۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ حمل میں ایک دم سے ہی صورتحال بدلتی ہے۔ اسی لیے ہم اسے بازی گر کا کھیل کہتے ہیں، نہ جانے کب پانسا پلٹ جائے۔
مائلڈ پری اکلیمپسیا میں بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے لیے ادویات دی جاتی ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ ہر ہفتے کروائے جاتے ہیں اور الٹراساؤنڈ ہر دو ہفتوں کے بعد۔ ڈیلیوری 37 سے 38 ہفتوں بعد کروالی جاتی ہے۔ چاہے مصنوعی درد لگانا پڑے یا پھر سیزیرین کرنا پڑے۔
سویئر پری اکلیمپسیا میں بلڈ پریشر قابو میں نہیں آتا چاہے دو تین قسم کی دوائیں ہی کیوں نہ استعمال کروائی جائیں۔ پیشاب میں پروٹین بڑھتا جاتا ہے، خون میں پلیٹلیٹس گرنا شروع ہوجاتے ہیں، بچے کی نشوونما رک جاتی ہے۔ حاملہ عورت کو سر درد، چکر اور متلی کی شکایت رہتی ہے۔ سویئر پری اکلیمپسیا کو اگر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو عورت کو مرگی جیسے دورے پڑنے لگتے ہیں اور بچے کی پیٹ میں موت واقع ہوسکتی ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کا ایک ہی حل ہے کہ بچہ پیدا کروا لیا جائے چاہے ساتواں مہینہ ہو یا آٹھواں۔ بچہ بچے گا یا نہیں؟ یہ نہیں سوچا جاتا اس لیے کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ماں کی زندگی اہم ہے اور اسی کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
ہیلپ سنڈروم کے بارے میں ایک اور بات سمجھ لیں۔ ہیلپ سنڈروم (HELLP syndrome) کا نام کچھ الفاظ کے ابتدائی حروف جوڑ کر رکھا گیا ہے۔
H یعنی Hemolysis (خون کے جرثوموں کی ٹوٹ پھوٹ)
EL یعنی elevated liver enzymes (جگر کے مادے کا ضرورت سے زیادہ اخراج)
LP یعنی Low platelets (خون جمنے میں مدد دینے والے سیلز کی مقدار میں کمی)
یہ معلومات یاد کر لیجیے اور لیبارٹری رپورٹس ان کے مطابق پڑھنا سیکھیے تاکہ اپنی ہم سفر کی ہر مشکل میں آپ کو علم ہوکہ کب کیا کرنا ہے۔
سویئر پری اکلیمپسیا کے نتیجے میں اگر خون پتلا ہوجائے تو ڈیلیوری کے وقت خون کا بہاؤ روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ سویئر پری اکلیمپسیا میں نارمل ڈیلیوری کی جائے یا سیزیرین، خیال یہ رکھنا چاہیے کہ ایسے اسپتال میں ہو جہاں ہر قسم کی سہولت موجود ہوں۔ ان سہولیات میں بلڈ بینک، لیبارٹری، آپریشن تھیٹر اور سینیئر گائنا کالوجسٹ شامل ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر کے نتیجے میں حاملہ عورتوں کے مرنے کی شرح بہت زیادہ ہے اور ان ممالک میں بھی سرفہرست ہمارا ملک ہے جہاں دیہات اور چھوٹے شہروں میں اس طرح کا سیٹ اپ موجود نہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ ان کے سامنے موجود عورت کے اردگرد موت منڈلا رہی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حاملہ عورت کے لیے گھر میں بلڈ پریشر ماپنے کا آلہ موجود ہونا چاہیے۔ الیکٹرانک میں تو کوئی مشکل ہی نہیں، مینویل بھی سیکھ لیں جو بہت آسان ہے۔ ہم نے اپنے بچوں، شوہر اور بہن بھائیوں کو سکھا دیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ سب فرسٹ ایڈ دے سکتے ہیں۔ آپ بھی سیکھیے!
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔