نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (چھٹی قسط)

میگالتھس تعمیرات خاص طور پر کوٹیرو کی مربع تعمیر اور سنگی ستونوں کی سیدھی قطاریں، کانسی اور لوہے کے دور کے لوگوں کے مذہبی مقامات کی نمائندگی کرتی ہیں۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


یہ کتنا زبردست اور شاندار ہے کہ ہم جہاں رہتے ہیں وہ خطہ اس وسیع، منفرد، حیرت انگیز اور دلچسپ دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ مگر کیا یہ حیران کُن نہیں ہے کہ ہم تنزانیہ کے سیرنگیٹی نیشنل پارک جو مشرقی افریقہ میں ہے اُس کی قدرتی حیات کے متعلق تو بہت کچھ جانتے ہیں مگر ہمارے خطے میں موجود کھیرتھر نیشنل پارک کے متعلق ہم بہت کم جانتے ہیں۔

ہمیں یہ تو پتا ہے کہ سیرنگیٹی کے اس وسیع نیشنل پارک میں مارا، گریومیٹی، مبالاگیٹی اور سیرونورا نامی چار برساتی ندیاں ہیں لیکن آپ اگر مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ کھیرتھر نیشنل پارک میں کتنی برساتی ندیاں ہیں تو شاید میں آپ کو کوئی جواب نہ دے پاؤں۔ مجھے یہ اس لیے پتا نہیں ہے کیونکہ مجھ تک وہ معلومات پہنچی ہی نہیں۔ وہ بھی اس زمانے میں جب ڈیٹا تک پہنچنے کے لیے چند الفاظ کمپوز کرنے پڑتے ہیں اور ایک کلک کرنے کی دیر ہوتی ہے۔

بہرحال افسوس کرنے کے لیے آگے ایسے کئی مقام اور بھی آنے والے ہیں۔ یہی اہم سبب ہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں ہم نے ایسی انوکھی طبیعت کی وجہ سے گنوایا بہت کچھ ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی طور ہم گنواتے ہیں مگر اُن کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک دو آپشن ضرور موجود ہوتے ہیں مگر جب ہم اپنی تہذیب اور تاریخ کے اثاثے ایک بار کھو دیتے ہیں تو انہیں دوبارہ پانے کے لیے ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ بس ایک آپشن ہوتا ہے اور وہ ہے افسوس۔ پھر آپ ’افسوس‘ کے بٹن پر چاہے جتنے بھی کلک کرتے رہیں، اس سے کچھ واپس نہیں آتا۔

اس قسط میں بھی ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو صاحب ہمارے ساتھ ہیں جو گڈاپ کی تاریخ سے پہلے کے مقامات سے متعلق ہمیں بتائیں گے۔

تھوہر کنارو کے مشرق میں چند اور میگالتھک یادگاریں بھی ہیں۔ ان میں سنگی ستون، چھوٹے سنگی ستونوں کی قطاریں اور مرنے والوں کی یاد میں پتھروں سے بنائی گئی نشانیوں کے طور پر پتھروں کی ڈھیریاں شامل ہیں۔ تھوہر کنارو کی نشیبی پہاڑیاں سنگی ستونوں کی ان قطاروں سے بھری ہوئی ہیں۔ ستونوں کی اس قطار میں 15 چھوٹے اور بڑے سنگی ستون تھے جن میں سے اب صرف ایک ستون کھڑا ہے جبکہ باقی سب خستہ ہوکر زمین پر گِرچکے ہیں۔ ستونوں کی یہ قطار مشرق سے مغرب کی طرف ہے۔ اس قطار کے مغرب میں پہاڑی پر ایک ڈھیری ہے چونکہ ابھی تک اس پر تحقیق نہیں کی گئی اس لیے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کسی مرنے والے کی یاد میں بنائی گئی تھی یا راستوں کی پہچان کے لیے اسے تعمیر کیا گیا تھا۔

تھوہر کنارو سے دو کلومیٹر مغرب میں ایک اور میگالتھک سائٹ ہے جس کو ’کراڑو مقام‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی قدیم تدفین کی ڈھیریاں ہیں اور سنگی ستونوں کے دائرے ہیں۔ جن پر گول دائروں کے نشان ہیں جن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ قدیم انسانی آرٹ کے انتہائی اہم نمونے ہیں چونکہ ایسے نشان زیادہ تر قبروں پر گاڑے ستونوں اور گنبدی مقبروں پر ملتے ہیں اس لیے اس کو مذہبی حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔

وانکھنڈ میگالتھس: یہ میگالتھک سائٹ مہر وادی سے تین کلومیٹر مشرق میں وانکھنڈ پہاڑی ندی کے کنارے پر واقع ہے۔ اس جگہ پر سنگی ستون اور پتھروں کے دائرے ہیں۔ ستونوں اور پتھروں کے دائروں کے علاوہ، پتھر کا ایک بڑا گول دائرہ بھی ہے جو جنات سے منسلک ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ جنات نے یہ ڈھانچہ بنایا تھا۔ اسی طرح مقامی لوگ مہر وادی میں چٹان کی پینٹنگز کو بھی جنات سے جوڑتے ہیں۔ وادی مہر جو کراچی سے 50 کلومیٹرز شمال میں واقع ہے، کراچی کے علاقے میں سب سے بڑے Mesolithic (مڈل اسٹون ایج) سائٹس میں سے ایک ہے۔ اس وادی میں راک آرٹ اور میگالتھک سائٹس بھی شامل ہیں۔ یہاں پر قدیم ڈیم (گبربند) بھی ہیں جو مہر پہاڑی ندی پر بنائے گئے تھے۔

سندھ کی مول، ملیر، موئدان، مکھی، مال ماڑی، تونگ، ساڑی، باران، گج، نالی اور تھدھو وادیوں میں پتھر کے گول ڈھانچے کافی تعداد میں ہیں۔ وانکھنڈ کے مشرق میں جاکھرا قبیلے کے تاریخی چوکھنڈی مقبروں کے درمیان ایک سنگی ستون بھی ہے۔ گڈاپ کے تقریباً ہر دوسرے گاؤں میں سنگی ستونوں کی قطاریں اور دائرے پائے جاتے ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ اس طرح کے آثار تھوہر کنارو میں پائے جاتے ہیں۔

میگالتھک سائٹ ’میلو پہاڑی‘ گڈاپ سے پانچ کلومیٹر مشرق میں ہے۔ اس مقام پر کئی پتھر کی اوکھلیاں اور قدیم قبرستان ہیں۔ اس کے علاوہ سنگی ستونوں کی ایک قطار بھی ہے جو جنوب سے شمال کی جانب ہے۔ ان پتھروں کی قطار میں 11 ستون تھے جن میں سے پانچ اب بھی کھڑے ہیں جبکہ چھ گر چکے ہیں۔ مقامی لوگ اس کو ایک مقدس مقام مانتے ہیں اور اس کے قرب و جوار میں کوئی کھیتی باڑی نہیں کرتے۔ ان ستونوں پر بھی گول دائروں کے مخصوص کنندہ نشانات ہیں۔ اس طرح کے نشانات اس پہاڑی سلسلے کے کئی مقامات پر جو کراچی سے شروع ہوتے ہیں وہ آپ کو کھیرتھر، بڈو اور لکی پہاڑی سلسلے پر بھی ملیں گے۔

کچھ اس طرح کے نشانات والے مقامات جو باران اور مول وادیوں میں ہیں، مقامی لوگ ان پتھروں میں بنائے گئے گول دائروں کو جوگن، پیالہ یا اُکریوں (اوکھلی) کے نام سے پکارتے ہیں۔ ان میں سے جو ستون ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے تھے لوگوں نے اُن میں سے کچھ ٹکڑوں، جن میں یہ گول دائرے بنے ہوئے تھے اپنے کام کے لیے استعمال کیا جیسے دیے کے طور پر اور جو کچھ بڑے اور گہرے دائروں والے تھے لوگوں انہیں مصالحے اور اناج کوٹنے کے لیے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب بالکل بھی یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ بنے ہی اس ہی کام کے لیے تھے۔

پتھروں پر ان بنے گول دائروں (کپولس) کی ابتدائی تفصیلی رپورٹ جو ہمیں پڑھنے کے لیے ملتی ہے وہ ریویٹ کارناک Rivett-Carnac(1883ء) کی ہے جس نے کماؤن (اُتر پردیش) اور وسطی ہندوستان میں ان کپولس کا مطالعہ کیا تھا۔ کارناک کی تحقیق کے مطابق مہادیو کے مزاروں اور مندروں کے اردگرد کپیول کثرت سے ملتے تھے جن کا تعلق لنگم اور یونی کی نشانات سے تھا۔ اپنے دوسرے مقالے میں اس نے کپ مارک کے تغیر کی وضاحت کرنے کی کوشش کی، اسے پرمیوٹیشن (ریاضی میں ایک سیٹ کی ترتیب) کہتے ہوئے، بطور پروٹو رائٹنگ کوڈ (ماہرین آثارِ قدیمہ تحریر اور پروٹو رائٹنگ کے درمیان فرق کرتے ہیں کیونکہ تحریری نظام لسانی علامتوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ پروٹو رائٹنگ کوڈ قدیم راک آرٹ پر پایا جاتا ہے) کی کچھ علامات ہوتی ہیں جو جانوروں کی تصاویر کے آگے استعمال ہوتی ہیں، انہیں تقریباً 35 ہزار قبلِ مسیح قدیم سمجھا جاتا ہے اور یہ ابتدائی پروٹو رائٹنگ کی ابتدائی شکل ہوسکتی ہے۔ ان نشانیوں سے موسمی حالات کو ظاہر کرنے کے لیے کئی علامات کو ملا کر استعمال کیا گیا تھا جیسے انڈس اسکرپٹ کے وہ نشان جو مختلف مہروں پر ملتے ہیں۔ ہندوستان میں اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے مگر یہاں اتنا کام نہیں ہوا ہے۔ میں کوشش میں لگا ہوا ہوں کہ اس حوالے سے کام کیا جائے تاکہ ہم اپنے ماضی کی جڑوں کو ڈھونڈ سکیں۔

روزی بند میگالتھس: یہ میگالتھک سائٹ گڈاپ سے 25 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ سائٹ گنبدی مقبروں (Dolmens)، مربع تعمیرات (Square structures) اور سنگی ستونوں کے لیے مشہور ہے۔ مویدان اور دیگر دیہات کے لوگ روزی بند کے اس مقدس مقام کے قریب نہ اپنے مویشی چراتے ہیں، نہ کچھ کاشت کرتے ہیں اور نہ ہی وہ یہاں کی ان قدیم تعمیرات کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں۔ مربع تعمیرات جس کو ’کوٹیرو‘ کہتے ہیں اس سائٹ پر یہ مرکزی اور اہم تعمیرات ہیں۔ اس تعمیر کی دیواریں دو فٹ اونچی ہیں اور اس کے مغرب میں پتھروں کی ڈھیری کا دائرہ ہے۔ اس دائرے کے جنوب میں دو سنگی ستون اور چھ گنبدی مقبرے ہیں۔ کراچی میں کئی ڈولمن سائٹس ہیں۔ میں نے 2009ء سے 2015ء تک اپنی 6 سال کی مہم کے دوران 16 ڈولمن سائٹس دریافت کی ہیں۔

ابھی چونکہ ان میگالتھس تعمیرات پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق نہیں ہوئی ہے اس لیے ان کے متعلق کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ مگر اب تک جو ہندوستان یا دیگر ممالک میں تحقیقی کام ہوا ہے تو ممکن ہے کہ یہ تعمیرات خاص طور پر کوٹیرو کی مربع تعمیر اور سنگی ستونوں کی سیدھی قطاریں، کانسی اور لوہے کے دور کے لوگوں کے مذہبی مقامات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ کچھ میگالتھس کے ساتھ کپ مارکس کا تعلق بھی دلچسپ ہے۔ گنبدی مقبروں اور سنگی ستونوں پر کپ کے یہ نشانات قدیم کیلنڈر ہوسکتے ہیں۔

ان تمام میگالتھک مقامات کو مقدس مقامات سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ لوک داستان ہے جو میگالتھس کے وجود کو گھیرے ہوئے ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں ماضی میں جنات نے کھڑا کیا تھا اور یہ اُن کی عبادت گاہیں تھیں۔ یہ ایک وجہ ہے کہ مقامی لوگ میگالتھس کو تباہ نہیں کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان تعمیرات کو ان کے آباؤ اجداد نے تعمیر کیا تھا لیکن ان کو یہ پتا نہیں ہے کہ یہ کب تعمیر کیے گئے تھے۔

ملیر کی اس خاموش، قدیم اور پُراسرار وادی سے ہم محترم کلہوڑو صاحب سے فی الوقت جدا ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اس وادی میں کچھ اور وقت گزارنا ہے۔ ہم ذوالفقار کلہوڑو صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں ان اہم مقامات سے متعارف کروایا۔ تاریخ سے پہلے کے ان مقامات کی قدامت کے متعلق اگر جاننا چاہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آج سے 5370 برس قدیم ہیں۔ ہم انسان جو شاید 100 برس مشکل سے جی پاتے ہیں لیکن یہ مقامات ہمارے قدیمی رشتہ داروں کے ہیں اور ہزاروں برسوں سے یہاں پر موجود ہیں۔ اگر آپ کو تھوڑا یاد ہو تو گزشتہ قسط میں ڈاکٹر ذوالفقار صاحب نے مسلسل ان آثار کو کوٹ ڈیجی کے زمانے کے آثار کہا تھا۔

کراچی کے قرب و جوار کے لیے یہ بھی ایک بڑا اعزاز ہے کہ یہ زمانہ انڈس ویلی سویلائزیشن سے بھی پہلے کا زمانہ ہے یعنی کہ 3200 قبل مسیح قبل کا زمانہ۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ آج سے 5370 برس پہلے یہاں انسانوں کی ایسی بستیاں آباد تھیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ارتقائی انسانوں کی وہ بنیادی بستیاں تھیں جنہوں نے آنے والے دنوں میں انڈس ویلی سویلائزیشن کی تار پود کرنا تھی۔ موہن جو دڑو کے متعلق بھی یہ ہے کہ اگر ان آثار کی نیچے کھدائی کی جاتی (جو پانی کی تہہ آنے کی وجہ سے نہیں کی جا سکی) تو کوٹ ڈیجی زمانے کے آثار ملنے کی امید کی جا سکتی تھی۔ میں کراچی سے اس زمانے کی اہم بستیوں کا فاصلہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ان بستیوں کے لیے میں یہاں کوئی نقشہ پیش نہیں کررہا، آپ خود اپنے ذہن میں ان قدیم بستیوں کا نقشہ بنائیں کیونکہ ایسا کرنا شاید زیادہ مناسب اور پائیدار رہے گا۔

اگر آپ اس سفر کی ابتدائی اقساط سے ہمارے ساتھ ہیں تو یہ کہنے یا بتانے کی شاید ضرورت نہ ہوکہ سندھو گھاٹی میں داخل ہونے کے لیے مشکل ترین راستہ شمال میں ہمالیہ سے تھا جبکہ جنوب مغرب سے اور شمال مغرب سے داخل ہونے کے آسان راستے پرشیا اور سمندر تھے۔ اس لیے سندھو گھاٹی کی ابتدائی بستیاں یہاں پنپیں اور جوان ہوئیں۔ چونکہ اب تک کراچی میں جو قدیم سائٹس کی کھدائی ہوئی ہے وہ تقریباً تمام سائٹسں آپ کو اب کہیں نہیں ملیں گی۔ مگر یہ ذہن میں رہے کہ یہاں 3200 قبل مسیح میں بستیاں تھیں مگر ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ اس وقت معاشرہ کس قسم کا تھا۔ چونکہ اُن زمانوں میں جو دیگر بستیاں آباد تھیں ان کی کھدائی ہوئیں اور ابھی تک انہیں دیکھا جا سکتا ہے تو ہم اُن سے اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ یہاں بھی اس قسم کے حالات ہونے چاہئیں تھے۔

میں مختصراً آپ کو کوٹ ڈیجی بستی کے متعلق بتاتا ہوں کہ اُن زمانوں میں وہاں کا معاشرہ کیسا تھا اور وہاں کے لوگ کونسے ہنر جانتے تھے۔ کوٹ ڈیجی سندھ کی وہ واحد بستی ہے جس کے مشرق میں سرسوتی یا ہاکڑہ کا شاندار بہاؤ بہتا تھا (جس پر ڈھولا ویرا کی مشہور اور شاندار بستی بھی آباد تھی جس کے آثار کراچی سے جنوب مشرق میں 350 کلومیٹرز پر ہے) اور مغرب میں دریائے سندھ اپنے وسیع پاٹ میں خراماں خراماں بہتا تھا۔ آپ سوچیں وہاں خوراک اور آمدورفت کی کتنی سہولیات موجود تھیں۔

محقق ’مانک پتھاوالا‘، کوٹ ڈیجی کے متعلق ہمیں بتاتے ہیں کہ اس ٹیلے میں دفن تہذیب کی نشاندہی 1935ء میں بمبئی یونیورسٹی کے اسکالر مادھو سروپ نے کی جس کا تجزیہ تھا کہ یہ تہذیب تاریخ سے پہلے والے زمانے کی ہے’۔ تقریباً 20 برس کے بعد 1955ء اور 1957ء میں اس سائٹ کی پاکستان آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ نے کھدائی کروائی۔ اس کھدائی کی رپورٹ میں ڈاکٹر افضل احمد خان نے انکشاف کیا کہ ’کوٹ ڈیجی کی تہذیب موہن جو دڑو والی تہذیب سے 700 برس قدیم ہے۔ ان آثار کی لمبائی مشرق سے مغرب کی طرف 600 فٹ اور چوڑائی یعنی شمال سے جنوب کی طرف 400 فٹ ہے جبکہ اس کی اونچائی 40 فٹ ہے‘۔

آرکیالوجی رپورٹ کے مطابق ’اس مدفون شہر کے دو حصے ہیں جن میں سے ایک حصہ قلعے کے اندر ہے جس میں حکمران طبقات رہتے ہوں گے اور دوسرا حصہ قلعے کے باہر ہے جس میں دستکار لوگ رہتے ہوں گے جو اُن دنوں غلاموں کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ لوگ اجتماعی طور پر ایک سماجی طبقے کمی کمین کا درجہ رکھتے تھے اور حکمران طبقہ اجتماعی طور پر ان پر مالکانہ حقوق رکھتا تھا۔ یہاں کھدائی کرنے سے کُل 16 سطحیں ملی ہیں، سب سے اوپر کی تین سطحیں وادی سندھ کی تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں جبکہ 4 سے 16 سطحیں تک قبل از سندھ تہذیب کے آثار ملے ہیں۔

اس قدیم دور میں ایک قلعہ بھی ملا ہے جس میں طویل عرصہ ایک منظم اور عمدگی سے ترتیب دیا ہوا ایک شہر آباد رہا جس کا مطلب یہ ہے کہ وادی سندھ کے وجود میں آنے سے صدیوں پہلے یہاں دولت مند اور ترقی یافتہ لوگ رہتے تھے۔ ان کے مکانات منظم تھے جن کی بنیادیں پتھر کی اور دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں۔ برتن چاک پر بنتے تھے، ان کے حجری اوزار ترقی یافتہ تھے جن میں نیزوں کی اَنیاں، بَرچھے، چھوٹے اُسترے اور کھُرچنے وغیرہ شامل تھے۔ یہاں سے ایک بیل کی چکنی مٹی پر بنی ہوئی مورتی بھی ملی ہے۔ یہ لوگ طویل عرصے تک قلعے میں رہے ہوں گے اندازاً 600 یا 700 سال تو ممکنات کے دائرے میں آتے ہیں۔ شہر کا وہ حصہ جو قلعے سے باہر ہے۔ وہ حصہ بھی چار پانچ مرتبہ آباد ہونے کی نشانات کو آشکار کرتا ہے۔ قلعے کی دیوار میں حفاظتی برج بھی ہیں جن کی بنیادیں بھی پتھر کی اور باقی چُنائی کے لیے کچی اینٹوں کا استعمال ہوا’۔

کھدائی میں تیسری سطح سے نیچے اور چوتھی سطح کے اوپر، یعنی وادی سندھ کی تہذیب کے آنے اور اس سے پہلے کے زمانے کے درمیان شدید آتش زنی کے آثار ہیں۔ ڈاکٹر ایف اے خان کے مطابق ’نئے آنے والوں نے قدیم شہر کو جلا کر تہس نہس کردیا۔ اس کے ثبوت میں اہم نکتہ یہ ہے کہ پہلے باریک دیوار کے نفیس برتن بناتے تھے جبکہ نئے لوگ موٹی دیوار کے برتن بناتے تھے۔ قدیم ظروف ہمیشہ باریک، نفیس اور ہلکے رہے ہیں صرف قدیم دور کے اختتام پر ایسا ہوتا ہے کہ ظروف سازی میں تبدیلی آتی ہے۔

محقق یحییٰ امجد لکھتے ہیں کہ ’کوٹ ڈیجی ثقافت زوال آمادہ نیم اشتراکی سماج اور اُبھرتے ہوئے غلامی کے معاشرے کی دور ثقافت تھی، اس میں اکثر غلاموں کی بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں جو مالکان کے شہروں کو تباہ و برباد کرتے رہتے تھے۔ آخر چوتھی سطح کے زمانے میں پرانے غلام مالکان کو شکستِ فاش ہوتی ہے اور دیہاتوں سے آکر حملہ آور ہونے والے زرعی غلام ان کے شہروں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس طرح ایک نیا سیاسی اقتدار قائم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں قدیم وادی سندھ کے طول و عرض میں ایک نہایت طاقتور غلام ریاست وجود میں آتی ہے جسے وادی سندھ کی تہذیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ریاست ایک انقلاب کے ذریعے وجود میں آتی ہے جس میں کسانوں کی چھوٹی سلطنتیں ایک وسیع سلطنت میں ضم ہوجاتی ہیں۔ ہڑپہ اور موہن جو دڑو کے شہر اندازاً 600، 700 سال زندہ رہے۔ اگر یہ شہر یکے بعد دیگرے آئے تھے تو وادی سندھ کی یہ ریاست تقریباً 1400 سال زندہ رہی‘۔

کوٹ ڈیجی کا تھوڑا سا تذکرہ ابھی باقی ہے۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہم اپنے اتنے اہم موضوع کو تشنگی کے ریگستانوں میں چھوڑ دیں۔ ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ جب کل کلاں کراچی کے حوالے سے بات کریں تو اُس کے پوچھے گئے سوال کا جواب اگر زیادہ تفصیل سے نہ سہی مگر اتنا تو ضرور یہ سفر دے سکے کہ اُس کی پیاس بجھ تو سکے۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس کے سوال کو تشنگی کی ناامیدی اپنی جھولی میں ڈال کر واپس نہ لوٹنا پڑے۔ تو جلدی ملتے ہیں آج سے پانچ ہزار برس پہلے کے شب و روز میں۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔