پاکستان

پاک فوج کو ’بغاوت پر اکسانے‘ پر میجر (ر) عادل راجا کو 14، کیپٹن (ر) حیدر مہدی کو 12 سال قید کی سزا

کورٹ مارشل کے ذریعے افسران کو بغاوت پر اکسانے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی اور ریاست کے خلاف کام کرنے پر سزا سنائی گئی، آئی ایس پی آر
|

پاک فوج نے 2 ریٹائرڈ افسران عادل فاروق راجا اور حیدر رضا مہدی کو کورٹ مارشل کے ذریعے سزا سنا دی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے دونوں ریٹائرڈ افسران میجر (ریٹائرڈ) عادل فاروق راجا اور کیپٹن (ریٹائرڈ) حیدر رضا مہدی کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے اور ریاست کے تحفظ اور مفاد کے برخلاف کام کرنے کے الزامات کے تحت سزا سنائی گئی۔

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ عدالت نے 7 اکتوبر اور 9 اکتوبر 2023 کو دونوں افراد کو عدالتی کارروائی کے تحت مجرم قرار دیا اور فیصلہ سنایا، جس کے تحت میجر (ریٹائرڈ) عادل فاروق راجا کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی جبکہ کیپٹن (ریٹائرڈ) حیدر رضا مہدی کو 12 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سزا کے تحت 21 نومبر 2023 سے دونوں افسران کے رینک ضبط کر لیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق فوجی افسر عادل راجا گزشتہ سال پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خاتمے کے بعد برطانیہ چلے گئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عادل راجا اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف بلاگز اور سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں، وہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر سرگرم ہیں اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بھرپور حامی ہیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق عادل راجا اور فوج کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کے بعد وہ گزشتہ سال اپریل میں اسلام آباد سے لندن چلے گئے تھے، اس کے بعد سے انہوں نے کئی حاضر سروس فوجی افسران کا نام لیتے ہوئے ان پر ’حکومت کی تبدیلی‘ کی سازش کے الزامات لگائے ہیں۔

رواں برس 12 جون کو اسلام آباد پولیس نے بیرون ملک مقیم صحافیوں شاہین صہبائی اور وجاہت سعید خان کے ساتھ ساتھ عادل راجا اور سید حیدر رضا مہدی کے خلاف 9 مئی کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کے لیے ’بغاوت کو ہوا دینے‘ اور لوگوں کو اکسانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا۔

ایف آئی آر میں شکایت کنندہ محمد اسلم نے کہا تھا کہ وہ 9 مئی کو دارالحکومت کے علاقے جی-11 سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے 20سے 25 لوگوں کو دیکھا جو عادل راجا، وجاہت سعید خان، سید حیدر رضا مہدی اور شاہین صہبائی کے ٹوئٹس اور ویڈیو پیغامات کے اسکرین شاٹس شیئر کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔

احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس واقعے کے بعد فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔

بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔

کراچی: راشد منہاس روڈ پر شاپنگ سینٹر میں آتشزدگی، 10 افراد جاں بحق

عورت مارچ سے متعلق میری متنازع ویڈیو کو ایڈٹ کرکے وائرل کیا گیا، مہر بانو

ورلڈ فوڈ پروگرام کو افغانستان لوٹنے والے خاندانوں کیلئے 2.7 کروڑ ڈالر کی فوری ضرورت