آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری سے متعلق اچھی خبریں آئیں گی، انوار الحق کاکڑ
نگران وزیراعظم انوار الحق نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق اچھی خبریں آئیں گی، ملک کو زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کان کنی کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے چند ہفتوں میں اچھی خبر کی توقع ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے پی پی‘ کے مطابق جمعہ کو ’بریک فاسٹ ود دی پرائم منسٹر‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک نشست میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ نگران حکومت معیشت، نجکاری اور مواصلات سمیت مختلف شعبوں میں مشکل چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔
وزیر اعظم نے بہتر پاکستان کے امکانات کے بارے میں اپنے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہنرمند انسانی سرمایہ کئی چیلنجز کا حل ہے، 24 کروڑ کی آبادی 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ انسانی سرمائے کی قدر میں اضافہ کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹارگٹڈ ٹریننگ پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا انتہائی ضروری ہے تاہم ان کی توانائیوں کو مناسب طور پر بروئے کار نہ لانا نقصان دہ نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ نگران حکومت کی ترجیحات میں سے ایک ترجیح ایسے پروگرام پر توجہ مرکوز کرنا ہے جس میں ایک دہائی میں 10 لاکھ نرسوں کو تربیت دی جائے گی، حکومت مختلف شعبوں میں زیادہ سے زیادہ مہارتوں کی فراہمی کے لیے سیمنز، جرمنی سمیت بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ شراکت کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اقتصادی تعاون تنظیم کا ایک اہم علاقائی رکن ہونے کے ناطے اپنے بھرپور قدرتی وسائل کے علاوہ وسط اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر اسٹریٹجک مقام پر واقع ہونے پر فخر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت خسارے میں چلنے والے ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری پر تیزی سے کام کر رہی ہے، اس فہرست میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری اولین ترجیح ہے اور جنوری کے وسط تک کچھ ٹھوس نتائج حاصل ہونے کی امید ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے ملک چھوڑ کر جانے والے باصلاحیت افراد کو کسی ناکامی کی علامت سمجھے جانے والے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان متنوع تخلیقی صلاحیتوں کی حامل تہذیب ہے، اس طرح کے باصلاحیت افراد مستقبل میں ملک کا اثاثہ بن سکتے ہیں اور یہ اس معاملے کو سمجھنے کا سنجیدہ اور مثبت طریقہ ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق اچھی خبریں آئیں گی، ملک کو زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کان کنی کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے بارے میں چند ہفتوں میں اچھی خبر کی توقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کاروبار میں آسانی کے لیے مواقع فراہم کر رہی ہے اور ہم ان کے ساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے اصلاحات بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سول اور ملٹری نمائندگان پر مشتمل ایک پلیٹ فارم ہے جو حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود منصوبوں کے تسلسل کو یقینی بنائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایگزم (ایکسپورٹ امپورٹ) بینک پاکستان کو مالیاتی سروسز فراہم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے جس سے مقامی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو بیرون ملک مالی لین دین کرنے میں مدد ملے گی۔
رابطے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ ٹرانس افغان ریلوے ازبکستان کو پاکستان سے جوڑے گی جبکہ کوئٹہ ۔ تفتان ریل نیٹ ورک کی بہتری پر بھی کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ آذربائیجان کے ساتھ حال ہی میں شروع کی گئی براہ راست پروازوں سے سفر کے دورانیے میں کمی آئے گی اور تجارت کو فروغ ملے گا۔
انوار الحق کاکڑ نے ٹیکس اصلاحات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت اخراجات میں کمی پر یقین رکھتی ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی اصلاحات پر بھی کام کر رہی ہے، ٹیکس کے ذریعے دولت کی تخلیق حکومت کے لیے اسکولوں، ہسپتالوں اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کے قیام کے لیے آمدنی کے استعمال کا بہترین ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں میڈیا آزادی سے کام کر رہا ہے جبکہ بالخصوص سوشل میڈیا کو کوئی کنٹرول نہیں کر رہا، البتہ ڈیجیٹل میڈیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ غور و خوض کے بعد اصول و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ بحران نہیں بلکہ پاکستان کی ارتقا پذیر جمہوریت کے عمل کا تسلسل ہے اور جمہوری عمل کے تسلسل کے ساتھ عوام بتدریج سیاسی جماعتوں کو کارکردگی اور خدمات کی فراہمی سے منسلک کرنا شروع کر دیں گے۔
انہوں نے جنوبی اور شمالی وزیرستان جیسے دور دراز علاقوں میں لوگوں کو درپیش شہری مسائل کو حل کرنے کے لیے بلدیاتی نظام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شہری ترقی پر مرکوز طرز حکمرانی کو ترک اور ملک کے دور دراز علاقوں کو ترقی یافتہ شہروں کے برابر لانے کے لیے زیادہ جامع انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔