کراچی: اغوا، ڈکیتی کے کیس میں ڈی ایس پی کے جسمانی ریمانڈ میں ایک روز کی توسیع
سندھ پولیس نے ڈی ایس پی طارق عمیر بجاری کے خلاف ایک اور فوجداری مقدمے میں تحقیقات کا حکم دے دیا جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے اغوا اور ڈکیتی کے مقدمے میں ان کے جسمانی ریمانڈ میں ایک روز کی توسیع کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی ایس پی اور ان کے 2 گن مین کانسٹیبل خرم علی اور کانسٹیبل فرحان علی کے خلاف اورنگی ٹاؤن میں 18 اور 19 نومبر کی درمیانی شب کو تاجر شاکر خان کے گھر پر چھاپہ مارنے کے مقدمات درج ہیں، جس میں انہوں نے 2 کروڑ روپے اور دیگر قیمتی سامان لوٹا اور کچھ وقت کے لیے تاجر اور ان کے بھائی کو یرغمال بنایا تھا۔
تفتیشی افسر نے ڈی ایس پی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور ان کے جسمانی ریمانڈ میں ایک ہفتے کی توسیع کرنے کی استدعا کی گئی کیونکہ پولیس کو اس واقعے میں ملوث دیگر ملزمان کو گرفتار کرنا ہے۔
شکایت کنندہ شاکر خان کے وکیل نے دلائل دیے کہ پولیس نے جان بوجھ کر ملزمان کو بچانے کے لیے تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی متعلقہ دفعات کو شامل نہیں کیا کیونکہ یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان کا ہے اور اسے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ ایف آئی آر میں اس وقت کے ایس ایس پی ساؤتھ عمران قریشی کا نام بطور ملزم کیوں شامل نہیں؟ وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ڈی ایس پی طارق عمیر بجاری سندھ کے مختلف اضلاع میں دائر دیگر مقدمات میں بھی نامزد ہیں۔
گرفتار ڈی ایس پی کے وکیل نے ریمانڈ میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ڈی آئی جی غربی اور ایس ایس پی غربی کو چھاپے کا علم تھا کیونکہ ایس ایس پی جنوبی نے چھاپہ مارنے سے پہلے ڈی آئی جی کو آگاہ کیا تھا۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی آر میں ڈی آئی جی اور ایس ایس پی غربی کو ملزم نامزد کرنے کے بجائے انکوائری افسر بنا دیا گیا، انہوں نے کہا کہ اس وقت کے ایس ایس پی جنوبی اور ڈیفنس کے ایس ایچ او کو باقی چوری شدہ سامان کی بازیابی کے لیے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
فریقین کا مؤقف سننے کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ محمد بلال عبداللہ قادری نے ڈی ایس پی کے جسمانی ریمانڈ میں ایک دن کی توسیع کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو جمعہ (آج) کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
پیرآباد تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365، 395، 342 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ آئی جی سندھ پولیس رفعت مختار راجا نے سابق ایس ایس پی جنوبی عمران قریشی، ڈی ایس پی عمیر طارق بجاری اور دیگر کے خلاف ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سمیت تین شہریوں کے اغوا اور ڈکیتی کے الزام میں انکوائری کا حکم دیا تھا۔
شکایت کنندہ محمد منصور شیخ نے آئی جی کو اپنی درخواست میں کہا تھا کہ وہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہے، پولیس کی وردی میں ملبوس تقریباً 15 سے 16 افراد نے حال ہی میں گلشن اقبال میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور انہیں اور خاندان کے دو دیگر افراد کو اغوا کر لیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں بوٹ بیسن پولیس کے پاس لے جایا گیا جہاں پولیس نے ہماری رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور تاوان کی عدم ادائیگی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں ہمیں شیریں جناح کالونی کی ’نان فنکشنل‘ پولیس چوکی میں رکھا گیا جہاں ہمارے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔
شکایت کنندہ نے خود کو درپیش تکلیف کے لیے ایس ایس پی عمران قریشی اور ڈی ایس پی طارق عمیر بجاری کو نامزد کیا اور پولیس چیف سے انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی۔
دریں اثنا، آئی جی نے جمعرات کو ڈی ایس پی بجاری کو محکمہ جاتی کارروائیوں کے زیر التوا ہونے کی بنیاد کے ساتھ پیر آباد تھانے میں درج ڈکیتی اور اغوا کے مقدمے میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا تھا۔
آئی جی کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق معطلی کی مدت کے دوران، وہ تنخواہ اور الاؤنسز حاصل کریں گے، جو قواعد کے تحت ان کو دیے جاسکتے ہیں۔