سپریم کورٹ جج کےخلاف الزامات کا جائزہ لینے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس
سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کے خلاف الزامات کا جائزہ لینے اور ان سے متعلق باضابطہ تحقیقات کا آغاز کرنے کے لیے الزامات کی میرٹ کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس منعقد کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے خلاف ضابطہ کار کی خلاف ورزی کی شکایات سننے کا بااختیار آئینی ادارہ ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے شکایت کنندگان پر واضح کیا کہ اگر فورم کو الزامات اہم معلوم ہوئے تو وہ جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کرے گا۔
کونسل کا فیصلہ آج بروز بدھ متوقع ہے جس کا انحصار جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف پیش کیے گئے شواہد کے ٹھوس ہونے پر ہے، جسٹس مظاہر نقوی کونسل کی کارروائی کے دوران موجود تھے، ان کی نمائندگی سینئر وکیل خواجہ حارث احمد نے کی۔
پیر کو خواجہ حارث احمد نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ابتدائی دلائل پیش کیے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے کونسل کی طرف سے ان کو دیے گئے 28 اکتوبر کے شوکاز نوٹس کو چیلنج کیا اور استدلال کیا کہ یہ کارروائی ایسی عدالت کے سامنے ہے جس کے پاس کیس کی سماعت اور اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان بھی سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہیں۔
منگل کی کارروائی کے دوران سپریم جوڈیشل کونسل نے شکایت کنندگان سے بدعنوانی کے الزامات ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد فراہم کرنے کی درخواست کی اور مزید وضاحت دینے کا کہا کہ جج کو اعلیٰ عدالت سے کیوں ہٹایا جانا چاہیے۔
ذرائع نے بتایا کہ جواب میں حسن رضا پاشا نے پاکستان بار کونسل کی جانب سے اپنا کیس پیش کیا جب کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل میاں داؤد نے جج کے خلاف متعدد الزامات دہرائے۔
سماعت کے دوران جج اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان مبینہ گفتگو پر مشتمل آڈیو لیک کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، ایک شکایت گزار نے جج پر الزام لگایا کہ وہ نہ صرف کھلے عام پی ٹی آئی اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ اپنے تعلقات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ پی ٹی آئی سے متعلقہ مقدمات کو ان کے حق میں کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ بھی کرتے ہیں۔
شکایت کنندگان نے آمدنی کے معلوم ذرائع سے زیادہ جائیدادیں بنانے کے الزامات بھی لگائے اور سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کی کہ وہ جج کو منی ٹریل پیش کرنے کا حکم دے۔
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ جج نے اپنے عہدے کا استعمال اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیا اور فیوچر ہولڈنگز کے مالک زاہد رفیق سے مالی فائدہ حاصل کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جج نے ڈی ایچ اے فیز 2، گوجرانوالہ کینٹ میں مکان نمبر 375 کو 2021 میں صرف 47 لاکھ روپے میں خریدنے کے بعد 6 کروڑ روپے میں فروخت کیا۔
جج نے مبینہ طور پر 2021 میں کم از کم تین بار اپنے ریٹرن پر نظرثانی کی اور آمدنی کے گوشوارے تبدیل کیے، اس کے علاوہ 2021 کے لیے اپنے ریٹرن میں جج نے اپنے گوشواروں میں سول لائنز گوجرانوالہ میں واقع الائیڈ پلازہ کا ذکر نہیں کیا جب کہ وہ جائیداد کے مالک تھے۔
اس کے علاوہ آمنہ ملک جن کی جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت پیر کو مسترد کر دی گئی تھی، نے سوال جواب سیشن کے دوران اعتراف کیا کہ ان کے شوہر عبداللہ ملک ایڈووکیٹ ایم اظہر صدیق کے جونیئر ساتھی تھے۔
ایم اظہر صدیق کو شکایت کی ایک کاپی فراہم کی گئی اور بعد میں انہوں نے ایس جے سی میں شکایت درج کرنے کے بارے میں ٹوئٹ کیا، تاہم وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکیں کہ جسٹس طارق مسعود کے خلاف شکایت کا مسودہ کس نے تیار کیا۔
آمنہ ملک نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ اپنی شکایت پر جسٹس طارق مسعود کے جواب سے مطمئن ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے جواب کے ساتھ تمام دستاویزات منسلک کر دی ہیں، خاتون نے اس سوال کا جواب دینے سے بھی انکار کر دیا کہ انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ منسلک ایف بی آر ریکارڈ کی کاپی کیسے حاصل کی۔
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ اور ان کے شوہر ٹیکس دہندگان نہیں ہیں، وہ یہ بھی بتانے سے قاصر رہیں کہ ان کی تنظیم سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان جس کی وہ صدر ہیں کس قانون کے تحت رجسٹر کی گئی تھی، وہ اس بات سے بھی بے خبر تھیں کہ تنظیم میں کتنے ارکان کام کر رہے ہیں، وہ تنظیم کے کسی ایک رکن کا نام بھی بتانے میں ناکام رہیں۔
پیر کو ایس جے سی نے شکایت کو ناقابل اعتماد اور ناقابل بھروسہ محسوس کرتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے آمنہ ملک نے جان بوجھ کر معلومات کو روکا اور کئی سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سچ نہیں بولا۔