پاکستان

پنجاب حکومت نے بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا

سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع، نگران وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔

پنجاب کی نگران حکومت نے آرمی ایکٹ 1952 کے تحت شہریوں کے ٹرائل کو غیرقانونی قرار دیے گئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔

23 اکتوبر کے فیصلے میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل بینچ نے قرار دیا تھا کہ پرتشدد مظاہروں کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

بینچ نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات فوجداری عدالتوں میں چلیں گے۔

سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1)(ڈی) کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، عدالت نے ایکٹ کی دفعہ 59(4) (سول جرائم) کو بھی غیر آئینی قرار دیا تاہم جسٹس تحییٰ آفریدی نے ان دفعات کو ختم کرنے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

پنجاب حکومت کی جانب سے یہ درخواست ایک ایسے موقع پر فائر کی گئی ہے جب 23 اکتوبر کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع نے بھی انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی جبکہ اس سلسلے میں نگران وفاقی حکومت، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی جانب سے بھی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

درخواست ابھی تک سماعت کے لیے قبول نہیں کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات ملک کی مسلح افواج اور ملک کی داخلی سلامتی کو کو کمزور کرنے کی ایک سوچی سمجھی اور جان بوجھ کر کی گئی کوشش کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار میں قابل سماعت نہیں ہیں، اصل درخواستوں میں اٹھائے گئے چیلنجوں کا فیصلہ ہائی کورٹس آرٹیکل 199 کے تحت اپنے اصل آئینی دائرہ اختیار میں کر سکتی تھیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پائیدار نہیں تھا کیونکہ یہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی جانب سے کوڈ آف کریمنل پروسیجر کے سیکشن 549 کے تحت جاری کیے گئے احکامات کی قسمت کا تعین کرنے یا فیصلہ کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ملزمان چاہے فوجی اہلکار ہوں یا عام شہری، ان کے ٹرائل کو کسی بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکشن 2(1)(ڈی) کے تحت کیے گئے جرائم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت وہ جرائم شامل ہیں جن کا تعلق دفاعی یا بحری، فوجی یا فضائیہ کے امور سے ہے اور جو ریاست پاکستان کے تحفظ، مفاد، دفاع، خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت تمام گرفتار افراد کے خلاف ٹرائل کی کوشش نہیں کی گئی تھی بلکہ صرف ان متعلقہ افراد کے ٹرائل کی کوشش کی گئی جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں درج جرائم کے دائرہ کار میں آتے ہیں، خاص طور پر صرف وہ افراد جنہوں نے ’ممنوعہ جگہ‘ میں دراندازی کی یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس جیسے دیگر جرائم کا ارتکاب کیا، ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ اپیل کی منظوری دیتے ہوئے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواستوں کو لاگت کے ساتھ خارج کیا جائے۔

عمران خان کی اپیل منظور، سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار

’دو ٹکے کی لڑکی‘ کا ڈائیلاگ صرف مہوش کے لیے تھا، عدنان صدیقی

بہنیں قربانی نہ دیتیں تو آج کرکٹر نہ ہوتا، شعیب ملک