پاکستان

9 مئی واقعات میں ملوث افراد کو ہیرو بنایا گیا تو بہت نقصان ہوگا، راجا پرویز اشرف

انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو نتائج متنازع ہوں گے اور وزیراعظم سلیکٹڈ ہوگا، اس طرح کا نظام ہائبرڈ یا کچھ اور تو کہا جاسکتا ہے جمہوری نہیں کہلا سکتا، اسپیکر قومی اسمبلی

اسپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ 9 کے واقعات میں ملوث لوگوں کو سزا ملنی چاہیے لیکن ان کو ہیرو بنایا گیا تو بہت نقصان ہوگا۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز آئی‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رہنما پی پی پی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ہر جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے حق آئین دیتا ہے، ماسوائے ان لوگوں کو جو کسی نہ کسی طرح سے ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں، یا مقدمات ہوں جن کو قانونی طور پر روکا جاسکتا ہے لیکن کسی جماعت کو نہیں روک سکتے تاہم انفرادی طور پر کسی کو روک سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں جو ملوث تھے، جنہوں نے پاکستان کی جگ ہنسائی کی اور پاکستان کو مذاق کا نشانہ بنا دیا اور ان لوگوں کو کہہ دیں کہ آپ جائیں اور انتخابات میں حصہ لیں تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ جو شخص ریاست مخالف بات کرے گا، ریاست اور دفاعی تنصیبات پر حملہ کرے گا تو اس کو ہیرو بنا کر پیش کریں گے تو یہ بھی بہت نقصان دہ بات ہے لہٰذا متوازن بات کرنی چاہیے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جن لوگوں نے یہ عمل کیا ہے اور کرایا ہے، ان کو ضرور روکنا چاہیے اور ان کو سزائیں ملنی چاہئیں تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرات نہ کرسکے، یہ ایسی چیزیں ہیں، جس پر ہمیں فکر کرنی چاہیے اور مذمت بھی کرنی چاہیے اور راستہ روکنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک جماعت نہیں بلکہ ایسا کام کرنے والے کسی بھی شخص کو اس کی اجازت نہیں ورنہ تو یہ ملک کیسے رہے گا، افراتفری ہوگی، جو چاہے کرے، کون سی جماعت ہے جو 10 سے 10 ہزار لوگ جمع نہیں کرسکتی، اس مائنڈ سیٹ کے خلاف بات کرنی چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سوال پر انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کر دینے چاہئیں۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ہر شہری اور ہر سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن پر اعتماد ہوگا تو انتخابات شفاف ہوں گے اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت ڈیلیور بھی کر سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو نتائج متنازع ہوں گے اور اس صورت میں بننے والا وزیراعظم سلیکٹڈ ہو گا جو ڈیلیو ر نہیں کر سکتا، اس طرح کے نظام کو ہائبرڈ یا کچھ اور تو کہا جاسکتا ہے جمہوری نظام نہیں کہلا سکتا۔

راجا پرویز اشرف نے ایک سوال پر کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو مزید مضبوط ہونا چاہیے تاکہ کسی گڑبڑ کی صورت میں اسے روک سکے اور الیکشن میں شفافیت آئے۔

ایک اور سوال پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ نگران حکومت کا کام غیرجانب دار رہ کر انتخابات کروانا ہے، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو سیاسی بیانات نہیں دینے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کو ترامیم کے ذریعے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اور دیگر اداروں سے معاملات طے کرنے کے لیے جو اختیارات دیے تھے وہ معاشی نظام چلانے کے لیے ضروری تھے۔

سابق وزیراعظم سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی میں 18 ویں ترمیم میں تبدیلی کی تجویز زیر غور آنے سےمتعلق شائع رپورٹ پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کے لیے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، اس کے بغیر آپ بات تو کرسکتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے اور تبدیلی کرنا بھی کوئی ناجائز بات نہیں لیکن ایک چیز کا بہت خیال رکھنا پڑے گا، بہت سارے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ یہ ضروری ہیں لیکن ماحول نہیں بن رہا ہوتا ہے، صوبوں کے خدشات ہوتے ہیں تو ہمیں ایسی بحث بغیر سوچے سمجھے نہیں چھیڑنی چاہیے، جس سے ہم ایک نئی بحث میں الجھ جائیں اور ایک اور مسئلہ کھڑا کریں اور باقی وقت اس گتھیاں سلجھانے میں صرف کریں۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کی بدولت کئی اچھے کام ہوئے، فوجی آمر ضیاالحق نے آئین میں اپنا نام لکھوایا تھا اور اس کے بعد 58 ٹوبی کی تلوار ہر وقت پارلیمنٹ کے سر پر لٹکی رہتی تھی لیکن اسی ترمیم کے بدولت صدر کا اسمبلیاں توڑنےکا اختیار یعنی 58 ٹو بی ختم کیا گیا، پھر صوبوں کے اختیارات اور حقوق سمیت کئی اہم ترامیم کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے پاس اس وقت دو تہائی اکثریت بھی نہیں تھی، اس کے باجود ہم نے سب جماعتوں کو اکٹھا کیا اور مل کر یہ ترمیم منظور کی لیکن اس وقت اسے ختم کرنے یا اسے انتخابی بیانیے کا حصہ بنانا درست نہیں۔راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اگر اس ترمیم میں کوئی خامی یا وقت کے ساتھ ساتھ کسی ترمیم کی ضرورت ہے تو اسے اگلی منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہے اور اس کے لیے دوتہائی اکثریت ضروری ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کو اس طرح چھیڑنے سے صوبوں اور دیگر حلقوں کی تشویش بڑھ سکتی ہے، اس لیے انتخابات میں یہ شوشہ اٹھانا بہت خطرناک ہوسکتا ہے، 58 ٹو بی کا خاتمہ اور صدارتی اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کرنے کے لیے کی جانے والی اس 18 ویں ترمیم کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو ملنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اس ترمیم میں کچھ تبدیلیاں ضروری ہوں لیکن اس انداز میں کریں گے اور باقی لوگ آپ پر اعتراض کرنا شروع ہوں گے تو پھر آپ اچھا کام بھی پہلے ہی متنازع بنا دیں گے، اس لیے اسے باز رہنا چاہیے، منشور میں کئی اور باتیں کی جاسکتی ہیں لیکن آئین پر بات کرتے ہیں تو آپ کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے مسلم لیگ (ن) اور ان کی قیادت پر تنقید سے متعلق سوال پر راجا پرویز اشرف نے کہا کہ نوجوانوں کو ضرور آگے آنا چاہیے لیکن 60 یا 70 سالہ بابے بھی سیاست میں ضروری ہیں۔

شیاؤمی کے ’ریڈمی‘ برانڈ کا مڈ رینج فون متعارف

18 ویں ترمیم یا این ایف سی میں تبدیلی کی تجویز زیرغور نہیں، سربراہ مسلم لیگ(ن) منشور کمیٹی

اسٹرابریز ذہنی و جذباتی فعالیت بڑھانے میں مددگار