پاکستان

لاہور: اسموگ کے تدارک کیلئے جنوری کے آخر تک تمام تعلیمی ادارے ہفتے کو بند رکھنے کا حکم

لاہور ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر حکام کو اسکول، کالجز، یونیورسٹیاں بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کردی۔
|

لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ پر قابو پانے کے لیے صوبائی دارالحکومت کے تمام تعلیمی اداروں کو جنوری کے آخر تک ہر ہفتے کو بند رکھنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عالیہ کے جج جسٹس شاہد کریم نے لاہور میں ماحولیات، اسموگ کے تدارک اور آبی آلودگی کے مسائل پر طویل عرصے سے زیر التوا مفاد عامہ کی متفرق درخواستوں پر سماعت کے دوران یہ احکامات جاری کیے۔

جسٹس شاہد کریم نے اسموگ کے تدارک کے لیے شہریوں کی طرف سے دائر درخواستوں پر تحریری حکم جاری کردیا، اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت پنجاب ہفتے کے دو روز ورک فرام ہوم کرنے کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نوٹی فکیشن میں جِم بند کرنے کا لفظ معطل کیا جاتا ہے، یہ نوٹی فکیشن کورونا کی شق کے تحت جاری کیا گیا تھا، اسے مزید لاگو نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے حکم دیا کہ اسموگ کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے والے محکمہ ماحولیات کے افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔

لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ کے باعث جنوری کے آخر تک ہفتے کے روز تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر متعلقہ حکام کو اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے شہر کے تمام اسکولوں اور کالجز کو 18 نومبر کو بند رکھنے کا حکم دینے کے ساتھ دفاتر میں ہفتے میں 2 روز ’گھر سے کام کرنے‘ کی پالیسی اپنانے کی تجویز دی تھی۔

اس کے علاوہ عدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب کو جھنگ، حافظ آباد، خانیوال، ننکانہ، بہاولنگر اور شیخوپورہ کے ڈپٹی کمشنرز کو فوری تبدیل کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔

اس سے قبل 3 نومبر کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کوٹ نے آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔

قبل ازیں یکم نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ کالا دھواں چھوڑنے والی فیکٹریاں سیل کریں، تمام اسکولوں اور کالجز کے بچوں کو کالا دھواں چھوڑنے والے کارخانوں کی اطلاع دینے کی ہدایت کی تھی۔

اسموگ کی صورت حال پر جسٹس شاہد کریم نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسموگ کا جو حال ہے اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی ہدایت پر محکمہ پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ کیئر نے پنجاب کے 10 اضلاع میں ایک ہفتے کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔

اس سے قبل یکم نومبر کو صوبے کو اپنی لپیٹ میں لینے والی شدید اسموگ سے نمٹنے کے لیے کوشاں حکومت پنجاب نے صوبے میں اسموگ سے نمٹنے کے لیے ایک ماہ کے لیے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں طلبہ و طالبات کے لیے ماسک لازمی قرار دیتے ہوئے صوبے بھر میں اسموگ ایمرجنسی نافذ کر دی تھی، اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے ایک اجلاس میں اسموگ کو کم کرنے کے اقدام کے طور پر رواں ماہ کے آخر میں ’مصنوعی بارش‘ برسانے پر بھی غور کیا گیا تھا۔

پنجاب میں اسموگ کی صورتحال

واضح رہے کہ لاہور ان دنوں شدید اسموگ اور فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہے، صوبائی دارالحکومت گزشتہ ہفتے کے شروع میں بھی شہر خطرناک فضائی آلودگی میں گھرا ہوا تھا جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) خطرناک سطح پر پہنچ گیا تھا، 14 نومبر کی صبح 9 بجے ایئر کوالٹی انڈیکس 401 پر ریکارڈ کیا گیا تھا جو سانس لینے کے لیے انتہائی غیر محفوظ قرار دی گئی سطح ہے۔

شام 7 بجے تک اے کیو آئی 188 تک آگیا اور رات 9 بجے یہ 236 ریکارڈ کیا گیا، 50 سے کم اے کیو آئی سانس لینے کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے اور لاہور کا حالیہ دنوں کا انڈیکس صحت عامہ کے لیے شدید خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔

لاہور میں روایتی طور پر سردیوں کے موسم خصوصاً اکتوبر سے فروری تک ہوا کے معیار میں کمی ہوتی ہے، اس عرصے کے دوران پنجاب کے وسیع تر صوبے میں کسان فصلوں کی باقیات کو جلاتے ہیں جس کی وجہ سے اسموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔

لاہور میں فضائی آلودگی کا بنیادی سبب گاڑیوں، صنعتی اخراج، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں، فصلوں کی باقیات، کچرے کو جلانا اور تعمیراتی مقامات کی دھول مٹی شامل ہیں، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے جنگلات کی کٹائی بھی اس میں اپنا بڑا حصہ ڈالتی ہیں۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی برقرار

مس یونیورس 2023: مقابلے کے دوران تھائی لینڈ کی حسینہ ملالہ یوسف زئی کی معترف

’ہم چیمپیئن ہیں‘، آسٹریلیا کے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سابق بھارتی کرکٹرز کا ردعمل