توشہ خانہ کیس: نیب کو 30 نومبر تک نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت
احتساب عدالت اسلام آباد نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو سابق وزیر اعظم کا بیان 30 نومبر تک ریکارڈ کرنے کی ہدایت کردی۔
احتساب عدالت میں نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، خواجہ عبدالغنی مجید، انورمجید اور دیگر کے خلاف توشہ خانہ نیب ریفرنس پر سماعتہوئی، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی۔
نواز شریف کی جانب سے پلیڈر رانا عرفان عدالت کے روبرو پیش ہوئے جب کہ آصف علی زرداری، خواجہ عبدالغنی مجید، انور مجید اور یوسف رضا گیلانی کے پلیڈر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
نواز شریف کے وکیل قاضی مصباح الحسن ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جہاں عدالت نے ملزمان کی حاضریاں لگائیں، وکیل صفائی قاضی مصباح نے کہا کہ ایک دفاع کا بیان رہتا ہے، عدالت نیب کو نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کرے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ضمنی ریفرنس فائل کرنا ہوگا، نواز شریف کی غیر حاضری میں ریفرنس فائل ہوا تھا، ہم چاہتے ہیں نواز شریف کا مؤقف نیب ریکارڈ کرلے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست پڑھنے کا وقت دیا جائے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس میں کیا مسئلہ ہے نواز شریف کو بلا کر بیان ریکارڈ کرلیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے بیان ریکارڈ کرنا ہوتا ہے، وہی کریں گے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ہمیں سوالنامہ دے دیں، ہم جواب دے دیتے ہیں،کوئی نزدیکی تاریخ دے دیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسر بیان ریکارڈ کرلیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے 30 نومبر تک سابق وزیر اعظم کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کی اور کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت نے 24 اکتوبر کو نواز شریف کی 10 لاکھ روپے مچلکوں پر ضمانت منظور کر لی تھی، اس کے ساتھ عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر تے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ سماعت پر نقول تقسیم کی جائیں گی۔
عدالت نے جائیداد ضبطی کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 نومبر کو جائیداد ضبطی کی درخواست پر دلائل طلب کیے تھے۔
احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ نیب کے مطابق نواز شریف کی گرفتاری درکار نہیں، وارنٹ کا مقصد عدالت حاضری تھا جو مکمل ہوگیا، نیب کے بیان اور دلائل کی روشنی میں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جاتے ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وکیل صفائی کے مطابق نواز شریف بیمار ہیں، ہر سماعت پر عدالت پیش نہیں ہوسکتے جبکہ عدم پیشی پر عدالتی کارروائی تاخیر کا شکار ہوگی اور عدالت کا وقت ضائع ہوگا لہٰذا رانا محمد عرفان کو نواز شریف کی جانب سے پلیڈر مقرر کیا گیا ہے، نواز شریف کی جانب سے رانا محمد عرفان ہر عدالتی پیشی پر حاضر ہوسکتے ہیں۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ 19 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں 21 اکتوبر کو نواز شریف نے وطن واپسی پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز میں اپنی سزاؤں کے خلاف زیر التوا اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواستوں پر دستخط کردیے تھے۔
یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
نواز شریف جیل میں صحت کی خرابی کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے تھے لیکن وہ تاحال پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے خلاف پاکستان میں متعدد مقدمات زیر التوا ہیں۔
نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 4 ہفتوں یا ان کے ڈاکٹر کی جانب سےان کی صحت یابی کی تصدیق کے بعد وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔
بعد ازاں گزشتہ سال اگست میں نواز شریف نے برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے ’طبی بنیادوں پر‘ ان کے ملک میں قیام میں توسیع کی اجازت دینے سے انکار پر امیگریشن ٹربیونل میں درخواست دی تھی۔
جب تک ٹریبونل نواز شریف کی درخواست پر اپنا فیصلہ نہیں دے دیتا نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں، ان کا پاسپورٹ فروری 2021 میں ایکسپائر ہوچکا تھا تاہم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بننے کے بعد ان کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2020 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، عبدالغنی مجید اور انور مجید پر فرد جرم عائد کی تھی جب کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا تھا۔