سفرنامہ ہسپانیہ: بارسلونا میں دوسرا دن (آٹھویں قسط)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
الارم کی آواز سے احساس ہوا کہ فجر کی نماز کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ دوسرے دن بھی بارسلونا کی سیر جاری رکھنے کے لیے صبح نماز اور ہلکا پھلکا ناشتہ کرکے تقریباً 8 بجے کے قریب ہم ٹیکسی کے ذریعے بارسلونا کے نورڈ بس اسٹیشن کی جانب روانہ ہوگئے۔ خوش قسمتی سے ڈرائیور پاکستانی تھا اس لیے ہم نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اس سے باتیں شروع کردیں۔
اس نے بتایا کہ اس کا نام امیر علی ہے اور وہ ایران، ترکی اور پھر مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے غیرقانونی طریقے سے بارسلونا پہنچا ہے اور پچھلے 7 سال سے یہاں مقیم ہے۔ ٹیکسی سے اس کی ماہانہ 3 ہزار یوروز کے قریب آمدن ہوتی ہے جس میں سے ٹیکسی کے مالک کو بھی حصہ دینا ہوتا ہے۔ امیر علی نے ہمیں راستے میں بارسلونا کی مختلف سڑکوں اور مشہور شاپنگ مالز کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ راستے میں ایک عمارت کے سامنے رک کر امیر علی نے بتایا کہ بارسلونا کے مرکز میں واقع اس عمارت کو امریکی سالار سانچیز کے حکم پر 1877ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔
لیکن بعدازاں 1904ء میں اسے بارسلونا کے معمار انتونی گوڈی نے دوبارہ ڈیزائن کیا۔ اس عمارت کو یہاں کے لوگ ’ہڈیوں کا گھر‘ بھی کہتے ہیں۔ کچھ دیر ہم اس عمارت کے آگے رکے رہے۔ عمارت کا بیرونی حصہ مختلف رنگوں کی ٹائلز سے سجایا گیا تھا۔ امیر علی کے مطابق عمارت میں ایک تہہ خانہ اور نچلی منزل کے علاوہ چار منزلیں ہیں جبکہ عقبی حصے میں ایک باغ بنا ہوا ہے۔ کچھ دیر قیام کے بعد ہماری ٹیکسی ایک بار پھر نورڈ بس اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئی۔
نورڈ اسٹیشن پر ہم نے امیر علی کو انتظار کرنے کا کہا کیونکہ ہمیں صرف اگلے دن کے لیے میڈرڈ کے بس ٹکٹس لینے تھے۔ میڈرڈ کے لیے صبح 8 بجے کے ٹکٹس خرید کر ہم امیر علی کے ساتھ دوبارہ بارسلونا کی خوبصورت گلیوں سے گزرتے ہوئے فرہاد ہمت کی رہائش گاہ کی طرف گامزن تھے۔ فرہاد کے اپارٹمنٹ پر ٹیکسی رکنے کے ساتھ ہی ہم نے امیر علی سے رخصت لی اور فرہاد ہمت کی فلیٹ میں داخل ہوگئے جہاں وہ پہلے سے ہمارے لیے ناشتہ بنانے میں مصروف تھا۔ عبداللہ شاہ صاحب نے منع کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو صبح ناشتہ کرچکے ہیں۔ جس پر فرہاد ہمت نے کہا کہ ’کوئی بات نہیں ہمیں آج ویسے بھی پورا دن پیدل سفر کرنا ہے اور مشکل سے ہمیں دوپہر کے کھانے کا وقت مل پائے گا اس لیے یہاں سے بھرپور کھا پی کر باہر نکلتے ہیں‘۔
فرہاد ہمت کے تیارکردہ ناشتے سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم سامان ان کے فلیٹ میں چھوڑ کر بارسلونا کو کھنگالنے نکل پڑے۔ کافی دیر یہاں گزارنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل انتونی گوڈی کے بنائے چرچ ’سگرادا فیمیلیہ‘ کے لیے کاتالونیا اسکوائر کے زیرزمین میٹرو اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ بارسلونا کا میٹرو اسٹیشن بھی جدید سہولیات سے آراستہ تھا اور ہر پانچ منٹ میں ایک میٹرو ٹرین سواریوں کو اپنی مطلوبہ منزل کی طرف لے جاتی تھی۔ ہم بھی اپنی مطلوبہ منزل کے لیے میٹرو ٹرین میں سوار ہوئے۔
تقریباً 10 منٹ بعد ہم سگرادا فیمیلیہ میٹرو اسٹیشن پر اتر گئے۔ ہم برقی زینوں کے ذریعے اوپر پہنچے تو ہمارے سامنے وہ شاہکار تھا جس کے متعلق میں نے پاکستان سے آتے ہوئے پڑھا تھا۔ یہ ایک کلیسا (چرچ) کی عمارت تھی اور 170 سال گزرنے کے باوجود بھی اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ پہلے تو شک یہی پڑ رہا تھا کہ شاید کسی پاکستانی ٹھیکیدار کی طرح اس کا ٹھیکہ کسی کرپٹ اور کام چور کو ملا ہوگا لیکن مجھے جو حقیقت حیران کررہی تھی وہ یہ تھی کہ یہ وہی ’سگرادا فیمیلیہ ’ تھا جس کی تعمیر انتونی گوڈی نے 1852ء میں شروع کی تھی۔ یہ چرچ شہر میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والی یادگار ہے۔ اس کو خوبصورت اور بلند ٹاورز کی بدولت دور سے پہچانا جاسکتا ہے۔ فرہاد کے مطابق سگرادا فیمیلیہ کا یہ کلیسا اس شہر کی پہچان اور فنِ تعمیر کا ایسا شاہکار ہے جسے اقوام متحدہ نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔
دنیا میں اس جیسی شاندار عمارت اور کہیں نہیں اور اس بات کا احساس تب ہوتا ہے جب آپ عمارت کے اندر جاتے ہیں۔ جوں جوں اوپر جاتے ہیں اس کی عظمت سامنے آتی جاتی ہے۔ اس چرچ کے دو بیرونی حصے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں، ان دونوں حصوں کی فنِ تعمیر گوڈی کی ذہانت واضح کرتی ہے۔ گزشتہ 170 سال سے زیرِتعمیر یہ شاہکار پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنے منفرد فنِ تعمیر کی وجہ سے حیرت میں مبتلا کرتا ہے۔
اس عمارت کے کچھ حصے آج بھی زیرِتعمیر ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ 2026ء تک اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی۔ یہاں سیاحوں کا رش دیدنی تھا اور وہ ایک لمبی قطار میں یہاں موجود تھے۔ اس شاہکار کو دیکھنے کے لیے 15 یوروز سے 35 یوروز کا ٹکٹ ہے۔ زیادہ تر سیاح آن لائن ٹکٹ خرید لیتے ہیں لیکن ہم نے نہیں خریدے تھے اس لیے لمبی قطار دیکھ کر فیصلہ کیا کہ اندر جانے کے بجائے باہر سے ہی اس عمارت کی فوٹوگرافی کرتے ہیں اور پھر یہاں سے بارسلونا کے ساحلی علاقے کی طرف چلے جائیں گے۔ وہاں پر موجود ایک ٹور گائیڈ سے پتا چلا کہ ٹکٹس کے پیسوں اور عوامی چندے سے کلیسا کی تعمیر ہورہی ہیں۔
اس عمارت کی عکس بندی کے بعد ہم اپنی اگلے منزل کی طرف پیدل چل پڑے۔ ہم چرچ کے دائیں طرف ایک سڑک پر مڑ گئے اور 10 منٹ کی پیدل واک کے بعد ہمارے سامنے ایک خوبصورت گیٹ آرک ڈی ٹرومف تھا۔
فرہاد نے بتایا کہ یہ باب الفتح ہے۔ بارسلونا میں 1888ء میں یونیورسل نمائش کی گئی تھی جس میں بارسلونا کی متعدد ٹیموں کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ آرک دی ٹرومف کا یہ گیٹ اس نمائش کے گیٹ وے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا جو پارک ڈی لا سیوٹڈیلا میں منعقد ہوا تھا۔ یہ یادگار کلاسیکی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا جبکہ اس کے دونوں اطراف نمایاں طور پر مجسمہ سازی کی گئی تھی۔ یہ مقام بھی شہر کے مشہور سیاحتی مقامات میں شامل ہے۔ اس گیٹ کے قریب ایک ہسپانوی بھکاری اپنے جمناسٹک کے کرتب دکھا کر پیسے اکٹھے کی کوشش کررہا تھا۔ ہم کچھ دیر کے لیے اس کے فن سے محظوظ ہوئے لیکن اس دوران میرے دونوں ساتھیوں کا پاکستانی لباس دیکھ کر ایک پاکستانی عمران چوہدری ہمارے قریب آیا اور کہنے لگا کہ ’لگ رہا ہے کہ آپ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ہیں‘۔
ہمارے اثبات میں سرہلاتے ہی وہ بغل گیر ہوئے اور بتایا کہ ان کا تعلق جہلم سے اور وہ فیملی سمیت میں یہاں 40 سال سے مقیم ہیں۔ قریب ہی ان کا ہوٹل بھی موجود تھا جہاں انہوں نے ہمیں چائے پینے کی دعوت دی۔ ہم ان کی اخلاق بھری دعوت نہ ٹھکرا پائے اور قریب ہی تاج محل کے نام سے ان کے ریسٹورنٹ سے کڑک چائے نوش کرنے اور پاکستان کی چند یادیں تازہ کرنے کے بعد اجازت طلب کی۔
یہاں سے ہم ایک بار پھر باب الفتح پار کرکے پارک دی کیتھڈرل میں داخل ہوگئے۔ اس پارک کے آغاز پر ہی گوڈی ہاؤس میوزیم ہے جو 1906ء سے 1925ء تک تقریباً 20 سال رہائش گاہ کے طور پر انتونی گوڈی کے زیرِ استعمال رہا۔ 1963ء میں اسے اوپن ہاؤس میوزیم کا درجہ دے دیا گیا جہاں گوڈی کے فرنیچر اور دیگر اشیا کا کلیکشن موجود ہے۔ ان اشیا میں مجسمے، پینٹنگز، ڈرائنگز وغیرہ بھی شامل ہیں جنہیں گوڈی نے خود ڈیزائن کیا تھا۔
اس میوزیم کی 4 منزلیں ہیں، نچلی اور پہلی منزل کو عام لوگوں کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ اس کے بیسمنٹ میں جانے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ دوسری منزل پر اینرک کیسانیلس لائبریری بنائی گئی ہے، فرہاد کے مطابق اس میوزیم کی دوسری منزل پر جانے کے لیے پیشگی اجازت درکار ہوتی ہے۔
پارک دی کیتھڈرل بھی انتہائی خوبصورت تھا۔ یہاں ہر طرف پھول ہی پھول موجود تھے اور جاگنگ ٹریک بھی بنا تھا جس پر بڑی تعداد میں گورے چہل قدمی میں مصروف تھے۔ مختلف سڑکوں پر سائیکلز کے پارکنگ اسٹینڈ اور پارکوں میں ورزش کرتے گوروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ بارسلونا کے رہائشی اپنی صحت اور جسمانی فٹنس کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
پارک میں چند ساعتیں گزار کر ہم کچھ ہی دیر میں بارسلونا کے مرینہ ساحل پہنچ چکے تھے۔ یہاں پر سیاحوں کا رش قدرے کم تھا لیکں بارسیلونیٹا ساحل کے مقابلے میں بحیرہ روم کا یہ حصہ زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا۔ فرہاد نے بتایا کہ چونکہ ابھی دوپہر کا وقت ہے اس لیے سیاحوں کی تعداد کم ہے، شام ہوتے ہی یہاں گہما گہمی زیادہ ہوجاتی ہے، بارز کی دنیا آباد ہوجاتی ہے اور یہاں کی راتیں میوزک، ڈانس اور دیگر رنگینوں میں جاگ کر گزرتی ہیں۔ ساحل کنارے بہت سارے کسینو (جوا خانے) بھی موجود تھے۔
ساحل پر دور تک پیدل واک اور تصاویر بنانے کے بعد ہم ایک بار پھر کولمبس کے مجسمے کے دیدار کیا اور ہم پرانے بارسلونا کی گلیوں میں داخل ہوئے۔
فرہاد کے مطابق یہ پورا علاقہ صدیوں پرانا ہے۔ یہاں پر ہر عمارت اور دیوار کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ شاپنگ کے لیے عبداللہ شاہ صاحب نے ان پرانی گلیوں میں ایک دکان کا انتخاب کیا لیکن پوری دکان چھاننے کے باوجود عبداللہ شاہ صاحب اور افتحار صاحب کو مطلوبہ اشیا نہ ملیں۔ اس لیے ہم پرانے شہر کے مرکز ’پلازہ ناؤ‘ کی طرف چل پڑے۔ بارسلونا شہر کا سب سے بڑا سیاحتی مرکز، کیتھڈرل ڈی بارسلونا چرچ کی عمارت، گوتھک کوارٹر میں شاہانہ طور پر کھڑی تھی۔
صدیوں پرانا یہ گرجا گھر بھی اپنی فنِ تعمیر کے حوالے ایک شاہکار ہے۔ یہاں پر بھی سیاحوں کا رش کافی تھا۔ یہ چرچ ہسپانوی زبان میں Catedral de la Santa Cruzy Santa Eulalia کہلاتا ہے۔ گوتھک طرز کے بنے اس کلیسا میں آرک بشپ براجمان ہوتے ہیں۔ اسے 13ویں صدی سے 15ویں صدی کے دوران بنایا گیا تھا لیکن اس کی تعمیر کا اہم ترین کام 14ویں صدی میں مکمل ہوا جبکہ اس کے سامنے کا حصہ 19ویں صدی میں بنایا گیا۔
یہ چرچ بارسلونا کے یولالیا (Eulalia of Barcelona) کے نام سے منسوب ہے جس نے رومن بادشاہت کے دور میں اپنی جان قربان کردی تھی۔ اس چرچ کی عمارت مجھے ’سگرادا فیمیلیہ‘ کے چرچ سے زیادہ خوبصورت اور پُرکشش لگا۔ سیاحوں کے جم غفیر کی وجہ سے ہمیں بڑی مشکل سے فوٹوگرافی کرنے کا موقع ملا۔
اب اندھیرا ہوچکا تھا۔ بارسلونا کی راتیں دنوں سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں۔ صدیوں پرانی عمارتوں کی گلیاں روشن ہوچکی تھیں۔ شاپنگ مالز بھرے ہوئے تھے۔ شراب خانے اور کلبز بھی اپنے گاہکوں کی راہیں تکنے لگے تھے جبکہ سڑکوں اور گلیوں ہسپانوی لڑکے لڑکیاں ہسپانوی میوزک پر مختلف رقص کرنے میں مصروف تھے۔
چونکہ اب ٹائم شاپنگ کرنے کا تھا اس لیے فرہاد ہمیں کچھ سستے مالز لے گیا جہاں سیل لگی ہوئی تھی۔ تقریباً تین گھنٹے کے بعد عبداللہ شاہ صرف ایک شاپر اٹھائے باہر آئے جبکہ افتخار صاحب نے بھی قدرے کم سامان لیا۔ شاپنگ سے فارغ ہوتے ہی ہم فرہاد ہمت کے ساتھ ان کے گھر کی طرف ٹیکسی میں روانہ ہوئے۔
عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔