پاکستان

9 مئی سانحہ: ملزمان کو فوجی ’تحویل‘ میں رکھنے کے خلاف درخواست پر حکومت سے جواب طلب

پشاور ہائیکورٹ نے 6 مشتبہ افراد کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر درخواست کی اگلی سماعت 30 نومبر کو مقرر کر دی۔

پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود 9 مئی کے پُرتشدد مظاہروں پر لوگوں کو فوجی حکام کی ’حراست‘ میں رکھنے کے خلاف دائر درخواست پر جواب طلب کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عبدالشکور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ تین دن کے اندر درخواست پر جواب جمع کروائیں۔

عدالت نے 6 مشتبہ افراد کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر درخواست کی اگلی سماعت 30 نومبر کو مقرر کر دی، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ضلع مردان میں مظاہرے کے دوران 9 مئی کو فوجی مراکز پر گولیاں چلانے اور جنگی ہیروز کے مجسموں کی توڑ پھوڑ کرنے کے خلاف درج ایف آئی آر کے سلسلے میں فوجی حکام کی تحویل میں ہیں۔

مردان سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں عدنان احمد، رحمت اللہ، یاسر نواز، شاکر اللہ، سعید عالم اور زاہد خان نے عدالت سے ان سمیت اس مقدمے کا سامنا کرنے والے دیگر 100 افراد کو ملٹری تحویل سے سویلین جیلوں میں منتقل کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی۔

انہوں نے استدعا کی کہ ایپکس کورٹ کی جانب سے شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کو غیر آئینی قرار دینے کے بعد بھی فوجی حکام کی جانب سے ان کی مسلسل نظر بندی کو غیر قانونی قید قرار دیا جانا چاہیے۔

درخواست گزار کے وکیل شاہ فیصل اور انعام یوسف زئی نے اس بات پر زور دیا کہ 9 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے غیر قانونی طور پر گرفتاری کے خلاف شہریوں نے ملگ گیر احتجاج کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کو ابتدائی طور پر پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کی مختلف دفعات کے تحت مردان شہر تھانے میں 9 مئی کو درج ایف آئی آر کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

وکلا نے بتایا کہ درخواست گزاروں سمیت 500 نامعلوم افراد کے خلاف درج ایف آئی آر میں پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی مختلف دفعات بھی شامل کی گئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد درخواست گزاروں کو ان کی اپنی عدالت نے ٹرائل کے لیے ملٹری حکام کے حوالے کر دیا تھا۔

وکیل شاہ فیصل نے اس بات کی نشاندہی کی کہ درخواست گزاروں سمیت 107 افراد کو گرفتار کر کے فوجی تحویل میں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 7 آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں، جس میں آرمی ایکٹ کی مختلف دفعات اور ملٹری کورٹس کے ذریعے عام شہریوں کے ٹرائل کو چیلنج کیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 23 اکتوبر 2023 کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت عظمٰی کے واضح احکامات کے باوجود درخواست گزاروں سمیت دیگر 100 افراد متعلقہ سول جیلوں میں منتقل ہونے کے بجائے فوجی حکام کی تحویل میں ہیں۔

وکیل شاہ فیصل نے کہا کہ ملزمان کو ملٹری تحویل میں رکھنا آئین اور قانون کے خلاف ہے۔

درخواست میں وزارت دفاع، سیکریٹری داخلہ اور دفاع کے ذریعے وفاقی حکومت اور سیکریٹری داخلہ، صوبائی انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ذریعے حکومت خیبر پختونخوا کو فریق بنایا گیا ہے۔

پنجاب: ملتان میں پہلا اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کر دیا گیا

عمران خان کا سائفر کیس میں ضمانت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

عدالت کا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہلخانہ کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم