پاکستان

عدالت کا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہلخانہ کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

پشاور ہائی کورٹ نے ڈاکٹر شکیل کی اہلیہ اور تین بچوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے وزارت داخلہ کے فیصلے کے خلاف مشترکہ طور پر دائر درخواست کو منظور کرلیا۔

پشاور ہائی کورٹ نے خیبر ایجنسی (موجودہ قبائلی ضلع خیبر) کے سابق سرجن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اہلیہ اور بچوں کے نام سفری پابندی کے لیے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے وفاقی حکومت کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کے نام فہرست سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس عبدالشکور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ نے ڈاکٹر شکیل کی اہلیہ عمرانہ شکیل اور ان کے تین بچوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے وزارت داخلہ کے فیصلے کے خلاف مشترکہ طور پر دائر درخواست کو منظور کر لیا۔

بینچ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مختصر حکم سنایا۔

ڈاکٹر شکیل پر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں امریکی سی آئی اے کی مدد کرنے کا الزام ہے اور وہ پنجاب کی ساہیوال سینٹرل جیل میں 23 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

2012 میں ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے انہوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی جبکہ 2014 میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے اس وقت کے کمشنر کی طرف سے اس سزا کو برقرار رکھنے کے خلاف بھی درخواست دائر کی گئی تھی، لیکن یہ درخواستیں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) ٹریبونل میں زیر التوا ہیں۔

درخواست گزاروں کی جانب سے وکیل محمد عارف جان آفریدی پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہیں اور وہ حکومت کو کسی جرم میں درکار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے غیر قانونی طریقے سے درخواست گزاروں کے نام بغیر کوئی معقول وجہ بتائے ای سی ایل میں ڈال دیے۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ عمرانہ شکیل، ان کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سمیت درخواست گزاروں نے اگر کوئی جرم نہیں کیا تو ان کے نام ای سی ایل میں نہیں ڈالے جا سکتے۔

سماعت کے دوران بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ درخواست گزار کسی بھی مقدمے میں مطلوب نہ تھے تو ان کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے گئے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی سفارش پر ڈاکٹر شکیل کے اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے۔

بینچ نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب کسی فرد پر کسی جرم کے ارتکاب کا الزام نہیں ہے تو صرف ایک سیکیورٹی ایجنسی کی سفارش پر کسی فرد کا نام اس فہرست میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ نام گزشتہ وفاقی حکومت نے ای سی ایل میں ڈالے تھے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ اس وقت مرکز میں نگران حکومت ہے جو محدود امور انجام دے سکتی ہے اس لیے وہ فہرست سے ناموں کو ہٹانے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔

واضح رہے کہ 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے فوراً بعد ڈاکٹر شکیل کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایجنسی کے سابق سرجن نے ایبٹ آباد میں ویکسی نیشن کی جعلی مہم کی نگرانی کی جس کی بدولت انہیں اسامہ بن لادن کا پتا چلا اور انہی الزامات کی بنیاد پر ڈاکٹر شکیل کو سزا سنائی گئی۔

23 مئی 2012 کو حکام کی طرف سے یہ بات منظر عام پر آئی کہ ڈاکٹر شکیل پر ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اور باڑہ (ضلع خیبر) کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ایف سی آر کے سیکشن 11 میں مذکور ’میکانزم‘ کے تحت متعدد الزامات کے تحت مقدمہ چلایا۔

انہیں 33 سال قید اور 3 لاکھ 20 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

ایف سی آر کمشنر نے 15 مارچ 2014 کو ان کی اپیل پر سماعت کی اور سزا کو برقرار رکھا تھا لیکن ان کی سزا کی مدت کم کر کے اسے 23 سال قید تک کردیا گیا تھا۔

محمد رضوان کے حق میں تھا، شاہین کو کپتان بنانے کی بات نہیں کی، شاہد آفریدی

اسرائیل کیوں نہیں چاہتا کہ حماس یرغمالیوں کو رہا کرے؟

احسن خان شادی شدہ نہ ہوتے تو میں جیون ساتھی بنا لیتی، صبا قمر کا انکشاف