نقطہ نظر

اعلانِ بالفور: ’فلسطین-اسرائیل تنازع کا ذمہ دار برطانیہ کو ٹھہرانا چاہیے‘

جب برطانیہ نے 1917ء میں کنٹرول سنبھالا تو آبادی کا 90 فیصد فلسطینی تھے تاہم بعد میں فلسطینیوں کی اکثریت نے خود کو بے گھر اور پناہ گزین کیمپوں میں مقیم پایا۔

موجودہ فلسطین-اسرائیل تنازع کی تاریخ 20ویں صدی میں اس وقت تک جاتی ہے جب برطانیہ نے اس خطے میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی متنوع تھی جس میں 7 لاکھ عرب، 85 ہزار یہودی اور کم تعداد میں وہ عیسائی بھی موجود تھے جن کے آباؤاجداد صدیوں سے اسی سرزمین پر آباد تھے۔

ابتدائی طور پر یہودی آبادی یروشلم اور صفد تک محدود تھی اور ان کی توجہ شہری اقتصادی سرگرمیوں پر مرکوز تھی جبکہ دوسری جانب زرعی شعبہ عربوں کے ہاتھ میں تھا۔

سیاسی صہیونیت کی ابتدا

ویانا کے یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل نے سیاسی صہیونیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا ماننا تھا کہ یہودی ایک الگ قوم ہیں اور صدیوں سے ان پر جاری ظلم وستم سے بچنے کا واحد حل، ان کی اپنی مملکت کا قیام ہے۔

صہیونیت کے بانی رہنماؤں نے یہودیوں کے لیے ریاست کی ممکنہ زمین دیکھنے کے لیے یوگانڈا اور یمن کے سوکوترا جزیرے سمیت مختلف ریاستوں کا دورہ کیا تاہم تاریخی اور مذہبی اہمیت کی وجہ سے انہوں نے فلسطین کو ترجیح دی۔

اعلانِ بالفور

1917ء میں پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکومت نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ انہوں نے یہودیوں سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں فلسطین میں زمین دیں گے لیکن اس کے بدلے یہودیوں کو جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی عربوں کی عسکری اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے برطانیہ نے عہد کیا کہ وہ اس خطے میں آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرے گا، جہاں پہلے سلطنتِ عثمانیہ کی حکومت تھی جن میں خاص طور پر فلسطین شامل تھا۔

2 نومبر 1917ء کو برطانوی حکومت نے اعلانِ بالفور کے ذریعے اپنے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فلسطین میں یہودیوں کی سرزمین کے قیام کے حق میں ہے۔ اعلان بالفور برطانیہ کے قدامت پسند سیاستدان اور مصنف لارڈ آرتھر بالفور کے نام سے منسوب ہے۔ اس اعلان میں خطے میں بسنے والی غیریہودی آبادی کے شہری، مذہبی اور سیاسی حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا۔

اعلانِ بالفور نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کی حمایت کرنے کا اعادہ کیا، یہی اعلان ایک پیچیدہ تاریخی میراث کی ابتدا ثابت ہوا۔ اگرچہ یہ یہودیوں کے لیے اپنی ریاست کے خواب کی تعبیر تھی لیکن اس اعلان نے فسلطینیوں کو جدوجہد اور نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا۔

یہاں تک کہ برطانوی کابینہ کے یہودی رکن ایڈون مونٹاگو نے صہیونیت کو ایک غلط سیاسی عقیدہ قرار دیا جوکہ یہود دشمنی کو فروغ دے سکتا ہے۔

عربوں نے فوری طور پر اعلانِ بالفور کی مخالفت کی جبکہ برطانیہ کی وار کیبنٹ سے بھی اس اعلان کی صداقت پر سوالات اٹھائے گئے۔ اس کے باوجود برطانوی حکومت نے یہ اعلان جاری کرنے کا انتخاب کیا اور تنازعات کے لیے محاذ کھول دیا۔

فلسطین کی تقسیم

پہلی جنگِ عظیم کے بعد ورسائے معاہدے میں برطانوی اور فرانسیسی راج نے فلسطین کو آپس میں بانٹ لیا۔ برطانوی افواج نے فلسطین پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا اور ابتدائی طور پر عثمانی سلطنت سے آزادی دلانے والوں کے طور پر ان افواج کا استقبال کیا گیا۔ گورننس اور انفرااسٹرکچر میں صہیونیوں کی مدد کرکے برطانیہ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

ہربرٹ سیموئل کی تعیناتی کے بعد سرکاری طور پر یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی جانے لگی۔ وہ ایک پکے صہیونی تھے جوکہ فلسطین میں برطانیہ کے پہلے ہائی کمشنر تھے۔ وہ اس علاقے کے انتظامی ذمہ دار تھے۔

برطانوی حمایت یافتہ صہیونی منصوبہ اہم زمینی تبدیلیاں لے کر آیا۔ فلسطین میں زمین کے مالکان جوکہ دوسرے خطوں جیسے دمشق اور بیروت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، انہوں نے اپنی زمینیں فروخت کردیں۔ اس فروخت نے بہت سے فلسطینی ورکرز کو اپنے گھروں سے بےدخل کیا اور بہت سے پناہ گزین وجود میں آئے۔ تل ابیب جیسے شہری مراکز نے ترقی کی اور مشرقی یورپی ممالک سے یہودی پناہ گزینوں کو راغب کیا۔

1930ء کی دہائی میں نازی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی فلسطین میں یہودی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ردِعمل کے طور پر عرب آبادی نے بھی اپنی قومی خودمختاری اور آزادی کے لیے مزاحمت کرنا شروع کی۔

برطانوی راج نے گرفتاریاں، کرفیو، گھروں کی مسماری، تشدد، ماورائے عدالت قتل اور فضائی بمباری کرکے عربوں کی بغاوت کی ان تحریکوں کو سختی سے کچل دیا جبکہ ان کارروائیوں میں بڑی تعداد میں فلسطینی ہلاک ہوئے۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس خطے میں برطانوی راج دم توڑنے لگا اور اسے مالی مشکلات کا سامان کرنا پڑا۔ فلسطین کی صورتحال بھی کشیدہ رہی جس کے نتیجے میں بلآخر برطانوی راج کا اختتام ہوا اور مسئلہ فلسطین کی بال اقوامِ متحدہ کے کورٹ میں ڈال دی گئی۔

فلسطین-اسرائیل تنازع میں کچھ لوگوں کا مؤقف ہے کہ برطانوی راج نے عربوں کو فائدہ پہنچایا جبکہ کچھ کے مطابق اس کا جھکاؤ یہودیوں کی جانب تھا۔ درحقیقت برطانوی انتظامیہ کی بنیادی وفاداری براہِ راست اپنے مفادات سے جڑی تھی جس نے بےترتیبی پیدا کی۔

فلسطین کی تقسیم کا اقوامِ متحدہ کا منصوبہ

1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کے حق میں ووٹ دیا جس میں سے ایک ریاست یہودیوں جبکہ ایک عربوں کو ملنی تھی۔ تاہم اس فیصلے سے امن قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے بجائے اسرائیل اور ہمسایہ عرب ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔

متحدہ محاذ پیش کرنے کے باوجود بنیادی طور پر ہر عرب ملک اپنے ذاتی مفادات کو آگے بڑھانا چاہتا تھا اور باہمی عدم اعتماد کا احساس غالب تھا۔ لبنانی اور مصری فوجیوں میں ایک دوسرے کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود تھے جبکہ ٹرانس جارڈن موجودہ مغربی کنارے پر دعویٰ کرتے ہوئے نظر آیا۔

اس پیچیدہ صورتحال کی وجہ سے فلسطین میں افراتفری کے حالات پیدا ہوئے اور عام فلسطینیوں نے خود کو ان مشکل حالات کے درمیان پایا۔

نکبہ اور اس کے نتائج

جنگ ہوئی اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے دوران نکبہ کی صورت میں فلسطینیوں کے لیے المیہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں کم سے کم 7 لاکھ 50 ہزار فلسطینیوں کو اپنے گھروں اور سرزمین سے بےدخل کیا گیا۔

اسرائیل کے بانی اور اس کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریون نے مغربی کنارے بشمول یروشلم، قدیم یروشلم اور غزہ پر قبضے کو روکنے کے لیے اقدامات کیے۔ یہ فیصلہ ان عرب پناہ گزینوں کی موجودگی کی وجہ سے ہوا جنہیں زبردستی اپنی زمین سے بےدخل کردیا گیا بلکہ انہیں اپنی آبائی سرزمین یعنی فلسطین واپس آنے کا موقع دینے سے بھی انکار کردیا گیا۔

برطانیہ کی ذمہ داری

2 نومبر کو اعلانِ بالفور کو 106 سال مکمل ہوئے جوکہ ایک انتہائی متنازع اور بغیر سوچے سمجھے جاری ہونے والا اعلان ہے کیونکہ اس میں خطے کی محدود تفہیم تھی اور اس کے باشندوں کے لیے زیادہ سوچا نہیں گیا تھا۔

اس تنازع کے لیے برطانیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے اور اس کے اقدامات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ جب برطانیہ نے 1917ء میں کنٹرول سنبھالا تو آبادی کا 90 فیصد فلسطینیوں پر مشتمل تھا۔ تاہم جب وہ یہاں سے گئے تو فلسطینیوں کی اکثریت نے خود کو بے گھر اور پناہ گزین کیمپوں میں مقیم پایا۔

اعلانِ بالفور میں کیا گیا غیریہودی آبادی کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ کہیں پیچھے رہ گیا اور برطانوی مینڈیٹ اور اسرائیل کی ریاست دونوں میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔


یہ مضمون 12 نومبر 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ثمن صدیقی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔