’کے الیکٹرک کے فرسودہ پلانٹس شہریوں پر 5 روپے فی یونٹ تک کا اضافی بوجھ قرار‘
نگران وزیر تجارت سندھ محمد یونس ڈھاگا نے کہا ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ کے فرسودہ پاور جنریشن پلانٹس کی وجہ سے کراچی کے شہری دیگر تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے مقابلے میں فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کی مد میں کے الیکٹرک کو کم از کم 3 سے 5 روپے فی یونٹ اضافی ادا کر رہے ہیں، جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے پر اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں بجلی فراہم کرنے کا سسٹم مکمل طور پر الگ ہے، جہاں ڈسٹری بیوشن اور پیداوار دونوں پر الگ الگ کام ہوتا ہے مگر کے الیکٹرک، بجلی کی پیداوار اور تقسیم میں کام کرنے والا واحد ادارہ ہے۔
یونس ڈھاگا نے کہا کہ موسم سرما میں بجلی کے اضافی کھپت کے کیس کو صحیح طریقے سے آئی ایم ایف کے سامنے پیش نہیں کیا گیا کیونکہ غیر فعال صلاحیت کو استعمال کرنے کی بات منطقی ہے جس سے گردشی قرضوں میں کمی آئے گی۔
انہوں نے صنعتکار اور تاجر برادری کو یہ تجویز دی کہ وہ آئی ایم ایف کے اسلام آباد دفتر سے رجوع کریں اور اضافی کھپت پر غلط آگاہی کے حوالے سے متعلق اپنے خدشات سے آگاہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں صنعتوں کو گیس کے نرخوں پر سبسڈی دی جاتی ہے جبکہ گھریلو صارفین کو زیادہ لاگت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں صنعتیں باقی تمام شعبوں کو سبسڈی مہیا کر رہی ہیں جو کہ بالکل بین الاقوامی عمل کے برعکس ہے۔
نگران وزیر تجارت سندھ نے کہا کہ کاروباری برادری کے ساتھ مشاورت کے بعد اسٹرکچرل تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ توانائی کے شعبے کو درپیش مسائل حل کیے جاسکیں جس سے صرف صنعتوں کو ہی ٹیکس کے نرخوں میں بے انتہا اضافے کا بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔
ان کے مطابق کراس سبسڈی کے ذریعے صنعتوں کے لیے نرخوں میں اضافہ کرنا اور دوسروں کے لیے کمی کرنا کوئی دانشمندانہ قدم نہیں، صنعتوں پر صرف گیس کی لاگت کا بوجھ ڈالنا چاہیے جبکہ کراس سبسڈی کو صنعتوں پر لاگو نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور، فیصل آباد اور دیگر شہروں نے ہم آواز ہو کر حکومت کو اپنے مطالبات پورا کرنے پر آمادہ کرلیا جبکہ بڑے پیمانے پر آمدنی اور بر آمدات میں حصہ ڈالنے کے باوجود کراچی پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ یہاں کاروباری برادری میں ہم آہنگی نہیں ہے۔
یونس ڈھاگا نے کہا کہ وہ ’کے سی سی آئی‘ کے نمائندگان اور دیگر صنعتکاروں کی جلد از جلد وزیر اعلیٰ سے ملاقات کروانے کی کوشش کریں گے تاکہ ہم مشترکہ طور پر ساختی تبدیلیوں کی تجویز دے سکیں اور بعد میں یہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے بھی اٹھایا جاسکے۔
بذریعہ زوم شرکت کرتے ہوئے چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ نومبر کے دوران مجموعی صنعتی کارکردگی میں ناقابل برداشت گیس نرخوں میں اضافے کے باعث نمایاں کمی آئی، جس کی تصدیق سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کی دیگر صنعتوں کو گیس فراہمی میں 25 فیصد تک کمی سے ہوسکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی کھپت پر چار ماہ کے دوران کم نرخوں پر بجلی فراہم کرنے کی درخواستوں کو مسترد کرنے کے آئی ایم ایف کے اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ یہ خالصتا معیشت کے حق میں ہے، جو گردشی قرضوں سمیت بہت سے اقتصادی مسائل سے نمٹنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔