خیرپور: گھریلو ملازمہ قتل کیس، ملزمان، مقتولہ کے والدین کے ڈی این اے لینے کی اجازت
خیرپور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 سالہ گھریلو ملازمہ فاطمہ فریرو کے قتل کیس کے تفتیشی افسر (آئی او) کی جانب سے دائر درخواست منظور کرتے ہوئے مقتولہ کے والدین اور جیل میں قید ملزمان کے ڈی این اے لینے کی اجازت دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تفتیشی افسر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) قدوس کلواڑ نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کے جج نے ان کی درخواست منظور کر لی ہے، ’لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ کیا لیبارٹری کا عملہ نمونے لینے جیل میں جائے گا یا پھر ملزمان کو لیبارٹری لایا جائے گا‘۔
تفتیشی افسر نے 12 اکتوبر کو لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے فرانزک مالیکیولر بائیولوجی لیبارٹری کے انچارج کی جانب سے لکھے گئے خط کی روشنی میں درخواست دائر کی تھی، نمونے جمع کرنے میں پہلے ہی ایک ماہ سے زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرپرسن اقبال ڈیٹھو کی جانب سے خیرپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ڈاکٹر سمیع اللہ سومرو سے مطالبہ کیا تھا کہ جب لیبارٹری پہلے ہی باضابطہ درخواست دے چکی ہے، تو مردوں کے ڈی این اے کو میچ کرنے کا عمل کیوں مکمل نہ ہوا، جس کے بعد پولیس نے اس حوالے سے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
ایس ایس پی نے دوسرے دن سکھر میں سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن سے ملاقات کی تھی، انہیں بتایا گیا کہ یہ کیس کی تفتیش میں ضروری فرانزک ثبوت کا ایک اہم حصہ ہے۔
ایس ایس پی نے قبل ازیں دعویٰ کیا تھا کہ متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کی جانب سے تشکیل کردہ خصوصی میڈیکل بورڈ کی ٹیکنیکل اسسٹنٹ ڈاکٹر سمعیہ سید کے مشورے پر ڈی این اے سیمپل پہلے ہی پنجاب کی لیبارٹری میں بھیجے جا چکے ہیں۔
ایس ایچ آر سی کے چیئرپرسن نے کہا کہ تفتیشی افسر کو ڈی این اے کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کرنی چاہیے تھی تاکہ پولیس کی جانب سے ملزمان اور مقتولہ کے والدین کو لیبارٹری لانے میں ناکامی کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ کے زیر التوا عمل کو مکمل کیا جا سکے، لیبارٹری کے انچارج نے انکوائری کمیٹی کے سیکریٹری کو بتایا تھا کہ مختلف مردوں کے مکس ڈی این اے ملے ہیں، اور لیبارٹری میں سیمپل حاصل کرنے ہیں۔
مقدمے کی تفصیل
لڑکی کے والد ندیم علی نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ جب اسے 14 اور 15 اگست کی رات ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا، تو ڈاکٹروں کی جانب سے اشارہ دیا گیا تھا کہ لڑکی کو پیٹ سے متعلق کچھ بیماری تھی۔
بعد ازاں ہسپتال سے ڈسچارج کے بعد لڑکی کی اپنے گھر میں موت واقع ہو گئی۔
لڑکی کی تشدد کے نتیجے میں موت کے دعوے اس وقت سامنے آئے جب لڑکی کی ویڈیوز وائرل ہوئیں، جس میں اس پر تشدد کے نشانات تھے، یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ ویڈیوز کس نے لیک کیں، پولیس ٹیم نے ویڈیوز حاصل کیں اور علاقے کے متعدد سماجی کارکنان سے بھی ملاقات کی۔
ضلع میں ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے واقعے کا نوٹس لیا اور ڈی ایس پی عبدالقدوس کلواڑ نے لڑکی کے والدین سے ملاقات کی، سماجی کارکنان اور وائرل ویڈیوز دیکھنے کے بعد ڈی ایس پی نے ڈی آئی جی کو رپورٹ دی کہ معاملہ سنگین ہے اور قبرکشائی کا مطالبہ کیا۔
سول جج کی ہدایت پر بچی کی قبر کشائی کے لیے میڈیکل ٹیم تشکیل دی گئی۔
ڈاکٹر ارشاد میمن نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلع نوشہرو فیروز کے ایک قبرستان میں قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل کرنے کے بعد کمسن ملازمہ کی میت کی دوبارہ تدفین کر دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طویل طریقہ کار تھا جس میں تقریباً 100 افراد شامل تھے جن میں پولیس، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے افسران کے ساتھ ساتھ ان کا معاون عملہ بھی شامل تھا۔
17 اگست کو خیرپور پولیس نے ایک اور مرکزی ملزم کو بھی گرفتار کیا، جسے بعد میں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
ایک اور جوان ملازمہ نے الزام عائد کیا کہ زیر حراست پیر اسد شاہ اور ان کی اہلیہ حنا شاہ نے اس پر تشدد کیا۔
خیرپور کے ایس ایس پی نے بتایا تھا کہ 13 سالہ بچی نے یہ دعویٰ ایک ویڈیو میں کیا اور پولیس اس کے بیان کو فاطمہ کی والدہ کی جانب سے اسد شاہ اور اس کی اہلیہ کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر کی کیس فائل کا حصہ بنا رہی ہے۔