نقطہ نظر

کیا کریز پر دیر سے آنے والے کھلاڑی کو ٹائم آؤٹ قرار دینا سخت سزا ہے؟

آئی سی سی قوانین کے مطابق بولڈ، کیچ، ایل بی ڈبلیو، اسٹمپ اور رن آؤٹ کے علاوہ وہ کون سے طریقے ہیں جن سے کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جاسکتا ہے؟

ورلڈکپ 2023ء میں بنگلہ دیش بمقابلہ سری لنکا میچ سے قبل ہی دونوں ٹیمیں سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو چکی تھیں اور اس میچ کی اہمیت چمپیئنز ٹرافی کوالیفیکیشن کے علاوہ کچھ نہ تھی۔ بنگلہ دیش نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تو سری لنکا کی چار وکٹیں 135 رنز پر گر گئیں۔ چھٹے نمبر پر اینجلو میتھیوز نے بیٹنگ پر آنا تھا جو ورلڈکپ کے لیے سری لنکن اسکواڈ کا حصہ نہ تھے لیکن کئی کھلاڑیوں کے ان فٹ ہونے کے باعث سینیئر آل راؤنڈر کو ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔

اینجلو میتھیوز کریز پر کچھ دیر سے آئے اور گارڈ لیتے ہی انہیں ہیلمٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی۔ ہیلمٹ کا اسٹریپ بند کرنا چاہا تو وہ ٹوٹا پایا گیا، میتھیوز نے ڈریسنگ روم کی جانب دوسرے ہیلمٹ کے لیے اشارہ کیا۔ ایک طرف میتھیوز نئے ہیلمٹ کو چیک کرنے میں مصروف تھے تو دوسری جانب بنگلہ دیشی کھلاڑی امپائرز کے پاس جمع تھے۔ تھوڑی دیر میں پتا چلا کہ بنگلہ دیشی ٹیم نے میتھیوز کے خلاف ٹائم آؤٹ کی اپیل کر دی ہے اور امپائرز نے میتھیوز کو آؤٹ قرار دے دیا ہے۔

اینجلو میتھیوز نے امپائرز سے بات کی تو انہوں نے صاف بتا دیا کہ اپیل پر انہیں قانون کے مطابق آؤٹ دینا پڑا۔ جب میتھیوز نے بنگلہ دیشی کپتان شکیب الحسن سے بات کرنا چاہی تو شکیب نے کندھے اچکا کر امپائرز کی جانب اشارہ کردیا کہ ان سے بات کی جائے۔ میتھیوز نے واپس جانے سے پہلے ایک بار پھر سے امپائرز سے بات کرنا چاہی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا اور یوں اینجلو میتھیوز انٹرنیشنل کرکٹ کی 146 سالہ تاریخ میں کھیلے گئے 9558 ویں میچ میں ٹائم آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

لیکن یہ ٹائم آؤٹ ہے کیا؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ آخر کرکٹ میں بلے باز کی وکٹ گرنے کے کتنے طریقے ہیں؟ بلے باز کئی طریقوں سے آؤٹ ہوکر پویلین واپس لوٹایا جا سکتا ہے جن میں سے بولڈ، کیچ، ایل بی ڈبلیو، اسٹمپ اور رن آؤٹ وہ طریقے ہیں جو عام طور پر دیکھنے میں آتے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی وکٹ گرنے کے مختلف طریقے موجود ہیں۔


آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ


آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ سے مراد فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کو تنگ کرنا جیسے کیچ پکڑنے سے روکنا یا رن آؤٹ کے لیے کی گئی تھرو کے آگے آ جانا ہے۔


ہینڈلنڈ دی بال


ہینڈلنڈ دی بال سے مراد ہے بلے باز کا گیند کو ہاتھ سے پکڑنا۔ 2017ء میں ہینڈلڈ دی بال کو آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ میں شامل کردیا گیا تھا کیونکہ دونوں طریقوں میں بلے باز فیلڈنگ ٹیم کو وکٹ کے حصول سے غیر قانونی طریقے سے روک رہا ہوتا ہے۔ سابق پاکستانی کپتان رمیز راجا 1987ء میں انگلینڈ کے خلاف ایک ون ڈے میچ میں 99 کے اسکور پر آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ کا شکار ہوچکے ہیں۔


مینکیڈ


نان اسٹرائیکر اینڈ پر باؤلر کے گیند پھینکنے سے پہلے اسکور کے لیے لائن سے باہر نکلنے والے بلے باز کو رن آؤٹ کرنا۔ مینکیڈ سابقہ بھارتی کپتان ونو مینکیڈ سے منسوب ہے جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی بار آسٹریلوی بلے باز بل براؤن کو اس طریقے سے آؤٹ کیا تھا۔ 2022ء میں مینکیڈ کو رن آؤٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔


ہٹنگ دی بال ٹوائس


گیند کو دو بار ہٹ کرنے سے بھی بلے باز اپنی وکٹ گنوا سکتا ہے لیکن اگر گیند بلے باز کو یا اس کے بیٹ کو لگ کر وکٹوں میں جا رہی ہو تو وہ اسے بیٹ یا ٹانگ سے روک سکتا ہے۔ ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں ہٹنگ دی بال ٹوائس کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن ٹی 20 انٹرنیشنل میں مالٹا کے فنیان مغل رومانیہ کے خلاف میچ میں اس طریقے سے وکٹ گنوا بیٹھے تھے۔


ہٹ وکٹ


بلے باز کا خود یا بلے باز کی کسی بھی چیز جیسے بیٹ، گلووز، کیپ یا ہیلمٹ کا وکٹ سے ٹکرانا۔ اس طریقے سے وکٹ گنوانے والوں میں سب سے پہلے انضمام الحق کا نام ذہن میں آتا ہے جو 2006ء کے دورہِ انگلینڈ کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں مونٹی پنیسر کو سوئپ کرتے ہوئے توازن کھو کر وکٹوں پر جا گرے تھے۔


ریٹائرڈ آؤٹ


باقی بلے بازوں کو باری دینے کے لیے باہر چلے جانا ریٹائرڈ آؤٹ کہلاتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں اس کی صرف ایک ہی مثال موجود ہے جب 2001ء میں بنگلہ دیش کے خلاف سری لنکن بلے باز مارون اتاپتو اور مہیلا جےوردھنے ریٹائرڈ آؤٹ ہوئے تھے ورنہ یہ طریقہ زیادہ تر پریکٹس میچز میں ہی دیکھا جاتا ہے۔ اب لیگ کرکٹ کے پھیلاؤ اور کرکٹ میں بے تحاشا کمرشل ازم آنے کے بعد ٹی20 کرکٹ میں بھی ایسے بلے بازوں کو ریٹائرڈ آؤٹ کروانے کے آپشن پر غور کیا جانے لگا ہے جو مناسب اسٹرائیک ریٹ سے نہ کھیل پارہے ہوں۔


ٹائم آؤٹ


اب سب سے آخر میں بات کر لیتے ہیں ٹائم آؤٹ کی اور اینجلو میتھیوز اس طریقے سے وکٹ گنوانے والے پہلے بلے باز بنے۔ ایم سی سی کے قوانین کے مطابق وکٹ گرنے یا بلے باز کے ریٹائرڈ ہوجانے کے بعد اگلے بلے باز کو تین منٹ کے اندر اگلی گیند کھیلنے کے لیے تیار ہونا چاہیے لیکن ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں یہ وقت دو منٹ اور ٹی20 کرکٹ میں 90 سیکنڈز ہے۔ آئی سی سی ٹورنامنٹس کے قوانین کے مطابق بھی یہ وقت دو منٹس کا ہی ہے۔


کیا اپیل کا فیصلہ اخلاقی طور پر درست تھا؟


اب قوانین کے مطابق تو یہ واضح طور پر آؤٹ تھا لیکن کیا اخلاقی طور پر بنگلہ دیشی ٹیم کو اپیل کرنی چاہیے تھی؟ اپیل کے بعد جب اینجلو میتھیوز خود چل کر شکیب کے پاس گئے تو کیا شکیب الحسن کو یہ اپیل واپس لینی چاہیے تھی؟ شکیب الحسن کے مطابق تو یہ ایک جنگ تھی اور وہ جیتنے کے لیے قوانین کے اندر رہتے ہوئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

شکیب الحسن اور بنگلہ دیشی ٹیم کی یہ اپیل اخلاقی طور پر کسی کو چاہے کتنی ہی بری کیوں نہ لگے لیکن کرکٹ قوانین کے تحت یہ آؤٹ ہی تھا تو شکیب اپیل کیسے واپس لے سکتے تھے۔ شاید کوئی اور کپتان ہوتا تو اپیل ہی نہ کرتا لیکن شکیب الحسن تو بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے دوران امپائرز کے ساتھ جھگڑتے بھی دیکھے جا چکے ہیں۔ ایک موقع پر بلے کے ساتھ وکٹیں گرائیں تو ایک اور موقع پر وکٹیں اکھاڑ کر ہی پھینک دی تھیں۔

فیلڈنگ سائڈ کی اس اپیل کے حق میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ کے زیادہ تر قوانین ہوں یا پچز یا کرکٹ بیٹس، تمام چیزیں کھیل کو حد سے زیادہ بلے باز کے حق میں کرتی جا رہی ہیں۔ فیلڈنگ سائڈ کو دیر کرنے پر دائرے میں ایک اضافی فیلڈر کی پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے تو ایسے میں دیر سے آنے والے بلے باز پر بھی کچھ جرمانہ تو ہونا چاہیے لیکن کیا جرمانے کے طور پر اسے بیٹنگ سے محروم ہی کر دینا درست ہے؟

یہ اتنا بڑا جرم تو نہیں جس کی اتنی بڑی سزا دی جائے۔ اس طریقے سے وکٹ گنوانے کو اخلاقی طور پر مینکیڈ سے ملایا جاتا رہا لیکن مینکیڈ میں وکٹ گنوانے والا بلے باز رنز چرانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ اگر بلے باز چند پل اور کریز پر گزار کر باہر نکلے تو اسے وکٹ گنوانے کا کوئی خطرہ درپیش نہ ہو لیکن پھنسے ہوئے میچ میں اسکور حاصل کرنے کے لیے یا ٹیل اینڈر کو اسٹرائیک سے ہٹانے کے لیے اگر بلے باز چند لمحے قبل اپنی کریز چھوڑتا ہے تو اسے اس کی سزا بھگتنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ تاہم ٹائم آؤٹ میں نہ تو بلے باز کوئی اضافی فائدہ حاصل کررہا ہے اور نہ ہی فیلڈنگ ٹیم کچھ خاص کرتے ہوئے وکٹ حاصل کررہی ہے۔

اس کے لیے جنوبی افریقہ اور بھارت کے درمیان 07-2006ء سیریز کے تیسرے ٹیسٹ کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں بھارت کی دو وکٹیں جلدی گرگئی تھیں۔ چوتھے نمبر پر حسبِ معمول سچن ٹنڈولکر نے آنا تھا اور وہ بیٹنگ کے لیے تیار تھے لیکن جنوبی افریقہ کی اننگ کے آخری مراحل میں سچن 18 منٹ تک فیلڈ سے باہر رہے تھے تو وہ 18 منٹس تک بیٹنگ کے لیے نہیں جا سکتے تھے۔

بھارتی ڈریسنگ روم میں چند منٹس کنفیوژن میں گزرے اور پھر سوراو گنگولی نے پیڈز پہننا شروع کیے۔ ادھر میدان میں گریم اسمتھ اور ساتھی کھلاڑی امپائرز کے ساتھ نئے بلے باز کا انتظار کررہے تھے۔ ٹی وی پر مبصرین ٹائم آؤٹ کے بارے میں بحث کر رہے تھے اور یہ تک کہہ رہے تھے کہ اب شاید بھارت کو اپنے نمبر 11 سری سانتھ کو بھیج دینا چاہیے تاکہ ٹائم آؤٹ وکٹ گرنے کی صورت میں زیادہ نقصان نہ ہو لیکن سارو گنگولی بیٹنگ کے لیے آئے تو شاید گریم اسمتھ سمیت سب ہی حالات سمجھ چکے تھے اور وکٹ گرنے کے تقریباً پانچ منٹ بعد کریز پر آنے کے باوجود بھی کسی نے ٹائم آؤٹ کی اپیل نہیں کی اور میچ بغیر کسی ڈرامے کے، ایک بار پھر سے شروع کردیا گیا۔

اینجلو میتھیوز کی یہ وکٹ ورلڈکپ کے ایک غیر اہم میچ میں ایک غیر اہم موڑ پر سامنے آئی تو شاید یہ واقعہ بھی جلد بھلا دیا جائے ورنہ 2019ء ورلڈکپ کی طرح فائنل میں ایسا واقعہ سامنے آتا تو سالوں تک زیرِ بحث رہتا۔ 2019ء ورلڈکپ فائنل میں باؤنڈری کاؤنٹ کے ذریعے انگلینڈ کے چمپیئن بن جانے کا واقعہ تو ابھی صرف 4 سال پرانا ہی ہے ورنہ 31 سال قبل 1992ء ورلڈکپ میں انگلینڈ بمقابلہ جنوبی افریقہ سیمی فائنل میچ میں بارش کے باعث دو اوورز کم کیے جانے کے باوجود ہدف میں کوئی کمی نہیں کی گئی تھی اور جنوبی افریقہ ٹیم فائنل تک رسائی میں ناکام رہی تھی۔

1992ء ورلڈکپ کے قوانین کے تحت بارش کی صورت میں بعد میں کھیلنے والی ٹیم کو اپنی اچھی باؤلنگ کا نقصان ہوجاتا تھا۔ بارش کی صورت سے جتنا وقت کم ہوتا تھا، اسی کے مطابق اوورز کم کردیے جاتے تھے لیکن ہدف میں بہت کم کمی ہوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے کھیلنے والی ٹیم کی اننگز سے وہ اوورز کم کیے جاتے تھے جن اوورز میں کم سے کم رنز بنے ہوں۔ پانچ اوورز کم ہونے کی صورت میں اگر پہلے فیلڈنگ کرنے والی ٹیم نے پانچ یا اس سے زائد میڈنز کیے ہوں تو قانون کے مطابق ہدف میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی تھی۔ بارش کے بعد ہدف میں تبدیلی کا یہ قانون تو چند سال بعد بدل دیا گیا لیکن قانون کا یہ سقم اور اس کے ساتھ ساتھ براڈ کاسٹرز کے وقت کی کمی کی وجہ سے وقت ہونے کے باوجود میچ کے وقت میں اضافہ نہ کیا جانا، یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔

ایل بی ڈبلیو فیصلے کے ریویو کے دوران امپائرز کال سے لے کر ٹائم آؤٹ کے قانون تک، کرکٹ کے قوانین میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کہ جن سے کھیل کے حسن میں مزید اضافہ ہو سکے۔ ایسے کھلاڑی کو تو ضرور ٹائم آؤٹ قرار دیا جاسکتا ہے جو کریز پر آنے میں دلچسپی ہی نہ رکھتا ہو لیکن دلچسپی رکھنے والے بلے بازوں کے لیے دیر ہوجانے کے بعد ٹائم آؤٹ کی جگہ رنز کا جرمانہ مناسب رہے گا۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔