پاکستان

سینیٹ اجلاس: فوجی عدالتوں کے حق میں قرارداد کے خلاف سینیٹرز کا احتجاج

ہم قرارداد کی کسی صورت توثیق نہیں کرتے، نہ ہی فوجی عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں، سپریم کورٹ نے فیصلہ عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا، سینیٹر سعدیہ عباسی

ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے فوجی عدالتوں کی حمایت میں متنازع قرارداد کی منظوری کے خلاف گزشتہ روز شدید احتجاج ریکارڈ کرایا اور قرارداد فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹرز کے شدید احتجاج اور کورم پورا نہ ہونے کے باعث ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی نے اجلاس کی کارروائی چند لمحوں میں ہی ملتوی کر دی۔

اجلاس کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی نے ایجنڈے کے برخلاف قرارداد کی عجلت میں منظوری کی مذمت کی، انہوں نے کہا کہ یہ قرارداد ایسے وقت میں پاس کی گئی جب ایوان میں صرف ایک درجن سینیٹرز موجود تھے۔

سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ہم قرارداد کی کسی صورت توثیق نہیں کرتے، ہم فوجی عدالتیں فعال ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ہی ہم ان کی حمایت کرتے ہیں، سپریم کورٹ نے جو بھی فیصلہ کیا ہے، عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے۔

وہ یہ بات پیر (13 نومبر) کو سینیٹ میں منظور کی گئی اس قرارداد کے حوالے سے کہہ رہی تھیں جس میں سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر کے اُس فیصلے کو مسترد کیا گیا تھا جس کے مطابق 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث شہریوں کے فوجی ٹرائل کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا گیا تھا۔

2 صفحات پر مشتمل یہ قرارداد آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی تھی اور اس کی حمایت صرف بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سینیٹرز نے کی تھی۔

قرارداد میں سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر کے فیصلے کو ’قانون کو دوبارہ لکھنے کی کوشش‘ اور ’پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے ٹکراؤ کے مترادف قرار دیا گیا تھا اور سپریم کورٹ سے اس پر دوبارہ غور کرنے کا کہا گیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اجلاس ملتوی کرنے سے چند منٹ قبل کسی بحث کے بغیر قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جبکہ اس وقت ایوان میں صرف ایک درجن ارکان موجود تھے۔

صرف پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے قرارداد کی عجلت میں منظوری کے خلاف احتجاج کیا تھا لیکن صادق سنجرانی نے ان کے احتجاج کو نظر انداز کر دیا۔

سینیٹر سعدیہ عباسی کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے جو سرکاری طور پر 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کی حمایت کرتی ہے، تاہم سعدیہ عباسی نے اعلان کیا کہ سینیٹ کی مذکورہ قرارداد سینیٹ کے ارکان کی اکثریت کے نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کر سکتے، کل کو سینیٹ میں کوئی ایسی قرارداد بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں ملک میں مارشل لا لگانے کا مطالبہ کیا جائے۔

انہوں نے قرار داد کی منظوری میں دکھائی دینے والی جلد بازی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد کو واپس لیں جو اراکین کی امنگوں کی عکاسی نہیں کرتی، انہوں نے اس عمل کو جمہوری اصولوں کی نفی اور پارلیمانی روایات کے خلاف قرار دیا اور ڈپٹی چیئرمین سے کہا کہ وہ ایجنڈے سے ہٹ کر انہیں اس متنازع قرارداد پر بحث کرنے کی اجازت دیں۔

سینیٹر سعدیہ عباسی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن ہیں، پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور نیشنل پارٹی (این پی) کے طاہر بزنجو نے سینیٹر سعدیہ عباسی کی حمیات کی، اِن سینیٹرز نے اُس وقت احتجاج کیا جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد نے انہیں اس معاملے پر مزید بحث کرنے سے انکار کردیا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے ڈپٹی چیئرمین کے ڈائس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ اس معاملے پر بولنے کی اجازت دیں، تاہم ڈپٹی چیئرمین نے زور دیا کیا کہ وہ ایجنڈے پر کارروائی پوری ہونے کے بعد ہی اس مسئلے پر بات کرنے کی اجازت دیں گے۔

سینیٹرز کا احتجاج جاری تھا، اس دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی، دریں اثنا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کر دیا۔

خیال رہے کہ کورم پورا ہونے کے لیے 100 رکنی ایوان میں ایک چوتھائی اراکین (26 اراکین) کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، گزشتہ روز کورم کی نشاندہی کے وقت ایوان میں صرف 15 سینیٹرز موجود تھے۔

دریں اثنا پیپلز پارٹی کے بہرام تنگی کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں سینیٹ کو آگاہ کیا گیا کہ صدر سیکرٹریٹ نے گزشتہ 5 برس کے دوران ایک ارب 80 کروڑ روپے کے اخراجات کیے ہیں۔

نواز شریف کی بلوچستان میں سیاسی ملاقاتیں، سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم

کیا بھارتی ٹیم ناک آؤٹ میچوں میں شکست کے بھوت سے چھٹکارا پانے میں کامیاب رہے گی؟

پاکستان نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فروخت کیلئے امریکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا، بی بی سی کا دعویٰ