’الیکٹیبلز‘ کو راغب کرنے کیلئے نواز شریف کا آج دورہ کوئٹہ
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف 8 فروری کے عام انتخابات سے قبل تمام صوبوں میں اسٹریٹجک اتحاد بنانے کی اپنی پارٹی کی پالیسی کے تحت آج سے بلوچستان کا 2 روزہ دورہ کر رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کی نواز شریف کی دعوت پر ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنماؤں کے وفد نے گزشتہ ہفتے لاہور میں سابق وزیر اعظم سے ملاقات کی۔
ذرائع نے بتایا کہ ’بلوچستان کے سرداروں‘ نے نواز شریف کو کہا کہ اگر وہ آئندہ انتخابات میں ان کا ساتھ چاہتے ہیں تو کوئٹہ آئیں اور ان کی عزت افزائی کریں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سردار ایاز صادق نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کوئٹہ میں سیاسی ملاقاتیں کریں گے جہاں ’متعدد الیکٹیبلز‘ ان کی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔
کوئٹہ کے حالیہ دورے کے دوران ایاز صادق نے جن اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں ان میں جام کمال اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی شامل تھے، جنہوں نے انہیں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
ذرائع کے مطابق بی اے پی سے تعلق رکھنے والے کچھ سابق اور موجودہ رہنما نواز شریف کے دورے کے دوران مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کر سکتے ہیں اور بی اے پی بطور ایک جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی اے پی کے کچھ رہنما اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رہے ہیں اور بی اے پی کے سابق رکن، موجودہ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ تھا، اس لیے شریف برادران کو انتخابات سے قبل بلوچستان میں پارٹی کے لیے اسٹریٹجک پارٹنرز کی تلاش میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
شریف برادران کے قریب سمجھے جانے والے کم از کم 3 افراد فواد حسن فواد، احد چیمہ اور عمر سیف وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی کابینہ میں شامل ہیں، پیپلز پارٹی کا الزام ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے وفاقی کابینہ میں تقریباً 8 ارکان کو شامل کرایا ہے جس کی وجہ سے عملی طور پر یہ مسلم لیگ (ن) کی نگران حکومت لگتی ہے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کم از کم 25 سرداروں اور الیکٹیبلز پر نظر ہے جو ممکنہ طور پر نواز شریف کے دورے کے دوران ان سے ہاتھ ملا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ پارٹی کا ہدف 8 فروری کے انتخابات سے قبل الیکٹیبلز کی پارٹی میں شمولیت ہے۔
بلوچستان کے انتخابات میں الیکٹیبلز کا کردار بہت اہم ہے، اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی یہ الیکٹیبل فیکٹر بہت اہمیت رکھتا ہے، آنے والے دنوں میں زیادہ سے زیادہ الیکٹیبلز پی پی پی یا کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کو ترجیح دیں گے۔
مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ نواز شریف، پی کے میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ، سابق وزیر اعلیٰ جام کمال اور نوابزادہ خالد مگسی، سردار محمد صالح بھوتانی سمیت بی اے پی کے دیگر رہنماؤں کے علاوہ پارٹی کے سینیٹرز، سابق ایم این اے اور ایم پی اے سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
نواز شریف ایک تقریب میں بھی شرکت کریں گے جس میں مختلف ’الیکٹیبلز‘ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کریں گے جن میں بی اے پی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این ایز اور ایم پی اے بھی شامل ہوں گے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی بلوچستان میں الیکٹیبلز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ جام کمال نے حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقات کی تھی اور ان کی پارٹی کی طرف سے انتخابات کے جلد انعقاد کے مطالبے کی حمایت کی تھی۔
بلاو بھٹو زرداری نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے اگر کسی جماعت نے کوئی عملی کام کیا ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے، پیپلز پارٹی 30 نومبر کو پارٹی کے 56 ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں کوئٹہ میں ہونے والے جلسے سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرے گی۔
’مشکل ترین انتخابات‘
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات ملکی تاریخ کے مشکل ترین انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے تمام جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو یہ اچھی علامت ہے۔
حمزہ شہباز نے مزید کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں تو یہ بھی اچھی بات ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نواز شریف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نئے لاڈلے ہیں، حمزہ شہباز نے جواب دیا کہ جب میں اپوزیشن میں تھا تو لوگ عمران خان کو لاڈلا کہتے تھے۔