ٹائیگر 3: پروپیگنڈا فلموں میں ایک ’مایوس کن‘ اضافہ
آرٹ کا مقصود فرد کے ذوق سلیم کی تسکین ہے۔ ادب ہو، موسیقی یا فلم، تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ان کا ایک مقصد فرد میں ارفع احساسات اجاگر کرنا بھی ہے۔ البتہ یہی اصناف فن اپنی بے پناہ رسائی کے باعث پروپیگنڈے کا آلہ کار بھی بن سکتی ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک یہ ادب تھا، جسے افراد یااقوام نے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیا، مگر سرد جنگ کے زمانے تک سنیما اور فلمیں اپنی حیران کن مقبولیت کے باعث پروپیگنڈے کا موثر ترین ذریعہ بن چکی تھیں۔
سلمان خان کی ٹائیگر 3 اس پروپیگنڈے کی تازہ مثال ہے، جس کا مرکزی خیال اتنا مصنوعی اور غیرحقیقی ہے کہ سنجیدہ فلم بین ششدر رہ جائیں۔ جی ہاں، ماضی میں اپنے وطن کی حفاظت پر مامور ٹائیگر نے اِس بار پڑوسی ملک، یعنی پاکستان میں جمہوریت کی حفاظت اور مارشل لا کا راستہ روکنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ فلم میں اِس عمل کی جس طرح منظر کشی کی گئی ہے، اسے نرم ترین الفاظ میں مضحکہ خیز ہی کہا جاسکتا ہے۔
بھارتی فلم انڈسٹری چاہے دنیا کی بااثر ترین انڈسٹری نہ ہو، مگر اپنی رسائی اور فلموں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی فلم انڈسٹری ضرور ہے۔ بالی وڈ کو اس انڈسٹری میں مرکزیت حاصل رہی، مگر بدقسمتی سے آج بالی وڈ میں قوم پرستی اور انتہاپسندی کا بیوپار عروج پر ہے۔ سپراسٹار سلمان کی فلم ٹائیگر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جسے خوب صورت پیکنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سلمان خان کا شمار بالی وڈ کے کامیاب ترین فن کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی مقبولیت اور اسٹار ڈم کا موازنہ شاہ رخ اور عامر خان سے کیا جاتا ہے۔ ان تینوں فن کاروں کی مشترکہ کامیابیوں ہی کی وجہ سے 90 کے عشرے سے بالی وڈ میں خانز کا ڈنکا بج رہا ہے۔ البتہ سلمان خان اپنے ہم عصر فنکاروں سے مختلف ہیں۔ ایک جانب جہاں عامر اور شاہ رخ خان نے وقفے وقفے ہی سے سہی، بطور اداکار رسک لیے اور تجربات کا جوکھم اٹھایا، وہیں سلمان خان نے ایک اداکار کے طور پر نت نئے تجربات کرنے کے بجائے اپنی مقبولیت پر انحصار کا فیصلہ کیا۔اسی باعث ان کی فلموں کے انتخاب پر سوالات بھی اٹھے۔
نئے ہزاریے کے آغاز میں وہ ناکامیوں کے بھنور میں پھنس چکے تھے۔ بدبختی چند برس قائم رہی، مگر 2009ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’وانٹڈ‘ کے بعد وہ باکس آفس پر خود کو منوانے میں ایک بار پھر کامیاب رہے۔ آنے والے برسوں میں انہوں نے ’دبنگ‘، ’ریڈی‘ اور ’باڈی گاڈ‘ جیسی ہٹ فلمیں دیں۔ البتہ یہ 2012ء میں ریلیز ہونے والی یش راج کی فلم ’ٹائیگر‘ تھی، جس میں ایک بھارتی ایجنٹ کا کردار نبھانے والے سلمان خان اپنے جوبن پر نظر آئے۔
سال 2017ء میں اس فلم کا دوسرا حصہ ’ٹائیگر زندہ ہے‘ ریلیز ہوا جو ایک بار پھر ناظرین اور ناقدین کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔ رواں برس اس کامیاب فرنچائز کا تیسرا حصہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ فلم کا تیسرا حصہ ماضی کی دونوں فلموں سے یوں مختلف تھا کہ یہ براہ راست یش راج کی اسپائی یونیورس کا حصہ تھا۔ اسپائی یونیورس دراصل کرداروں اور کہانیوں کے تسلسل کا نام ہے۔ یہ ایکشن اور تجسس سے بھرپور میگا بجٹ فلموں کی ایک ایسی زنجیر ہے، جس میں ہم سلمان خان، شاہ رخ خان، ریتک روشن جیسے فن کاروں کو ایک ساتھ بڑے پردے پر دیکھ سکتے ہیں۔
اس سلسلے کا باقاعدہ آغاز جنوری 2023ء میں ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی بلاک بسٹر فلم ’پٹھان‘ سے ہوا تھا، جس میں ناظرین کو ٹائیگر یعنی سلمان خان کے بھی درشن ہوئے۔ اس کیمیو نے خوب داد بٹوری، جس کے بعد یہ بازگشت سنائی دی کہ ٹائیگر تھری میں ناظرین پٹھان کے کردار کو ایک با پھرایکشن میں دیکھ سکتے ہیں۔
ٹائیگر، پٹھان اور کبیر، ایک ساتھ
یش راج نے ’پٹھان‘ کے ذریعے اسپائی یونیورس کی بنیاد رکھی، جس نے ناظرین کو متوجہ ضرور کیا مگر فرنچائز کا یہ تصویر نیا نہیں تھا۔ ’کے جی ایف‘ اور روہت شیٹھی کی ’کوپ یونیورس‘ میں اس خیال کو کامیابی سے برتا جاچکا تھا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یش راج اس میدان میں کچھ تاخیر سے کودا۔ البتہ پٹھان میں سلمان خان کے کیمیو کی جو پذیرائی ہوئی اُس کے بعد ٹائیگر میں شاہ رخ خان کی آمد لگ بھگ طے تھی جس نے دیوالی پر ریلیز ہونے والی اس فلم کو موضوع بحث بنا دیا۔
البتہ بڑھتی مسابقت کے پیش نظر یش راج نے ایک چال اور چلی اور ’وار‘ فرنچائز کے مرکزی کردار کبیر کو بھی ٹائیگر تھری کے پوسٹ کریڈٹ سین میں شامل کر دیا۔ اس فیصلے سے نہ صرف ’ٹائیگر 3‘ میں ناظرین کی دلچسپی بڑھی، بلکہ اگلے برس ریلیز ہونے والے ’وار 2‘ کی بھی ٹھیک ٹھاک پروموشن ہوگئی۔ ساتھ ہی ’پٹھان بمقابلہ ٹائیگر‘ نامی پروجیکٹ بھی پھر زیر بحث آگیا۔ یعنی یش راج نے ایک تیر سے کئی شکار کرلیے لیکن کیا یہ فلم ناظرین کی توقعات پر پوری اتری؟
فلم کا پلاٹ اور پاکستان دشمنی
جیسے کہ پہلے بھی عرض کیا، بالی وڈ میں اس وقت پاکستان مخالف فلموں کا رجحان زوروں پر ہے۔ ’دی کشمیر فائلز‘، ’کیرالا اسٹوری‘ اور ’غدر 2‘ کو ملنے والی حیران کن کامیابی کی وجہ سے یہ فارمولا پیسے کمانے کا آسان ذریعہ بن گیا ہے۔ البتہ یش راج جیسے بڑے بینر کا اس بھیڑ چال کا شکار ہونا تشویش ناک ہے۔
گو یش راج بینر کی جانب سے کوشش ضرور کی گئی کہ ”ٹائیگر 3“ روایتی پاکستان مخالف فلم نہ بنے، مگر اس کوشش کو عملی شکل دینے کے لیے جو کمزورپلاٹ منتخب گیا، اس کی وجہ سے یہ فلم چوں چوں کا مربہ بن گئی۔
ٹائیگر کا اپنی جان پر کھیل کر پاکستانی وزیر اعظم کی حفاظت کرنا، جمہوریت کے خلاف بغاوت کو ناکام بنانا اور پاکستانی وزیر اعظم کا قوم سے خطاب کے دوران ٹائیگر کی خدمات کا اعتراف کرنا فلم بین کو انتہائی مصنوعی محسوس ہوتا ہے۔ یہ مناظر جذباتی ناظرین کو متوجہ تو کرسکتے ہیں، مگر تادیر اپنا تاثر قائم رکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ اس عنصرکو کئی بھارتی فلم کریٹکس نے بھی محسوس کیا اور یہ نشان دہی کی کہ ’ٹائیگر 3‘ کی کہانی کا محور اور فلم کی سیٹنگ پاکستان ہے، جس کی وجہ سے بھارتی ناظرین کا ایک طبقہ اس سے متنفر ہوسکتا ہے۔
ٹائیگر 3 کو درپیش اس صورت حال پر کہا جاسکتا ہے کہ آپ اپنے جال میں صیاد آگیا۔ پاکستان مخالف فلم بنانے کی کوشش میں یش راج بینر نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔
فلم کی خوبیاں اور خامیاں
فلم میں خوبیوں کا فقدان اور خامیوں کی بہتات ہے۔ فلم کی پہلی بڑی خامی پلاٹ کا مصنوعی پن اور کمزور کہانی ہے۔ سلمان خان کی اداکاری فلم کی دوسری بڑی خامی ہے۔ ایکشن سین تک تو معاملہ ٹھیک ہے، مگر جذباتی مناظر کی فلم بندی اور ڈائیلاگ کی ادائیگی میں سلمان خان کی عدم دلچسپی کو فلم بین صاف محسوس کرسکتا ہے۔ فلم میں وہ کئی جگہ ’آؤٹ آف شیپ‘ اور ’اوور ویٹ‘ محسوس ہوئے۔
فلم کی سب سے بڑی خامی فلم کی ہدایت کاری ہے۔ منیش شرما ایک بڑے اسٹار کی میگا بجٹ فلم کو نہیں سنبھال سکے۔ ان کی پیش کش میں نیا پن نہیں۔ ہدایت کار کی اعتماد سے محرومی فلم میں کئی جگہ واضح دکھائی دیتی ہے۔ فلم کے مکالمے بھی کمزور ہیں۔
ٹائیگر تھری کا متوقع برنس
بولی وڈ میں دیوالی ایک بڑی ٹکٹ کھڑکی تصور کی جاتی ہے۔ گودیوالی کے پہلے روز ہندو برادری مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مصروف ہوتی ہے، جس کا اثر براہ راست کلیکشنز پر پڑتا ہے البتہ دوسرے دن فلم کے بزنس میں بڑی جست نظر آتی ہے۔
ٹائیگر تھری کا معاملہ ماضی میں دیوالی کے موقع پر ریلیز ہونے والے فلموں سے کچھ مختلف تھا۔ یہ کوئی عام فلم نہیں تھی۔ اسے سلمان جیسا اسٹار، یش راج جیسا بینر، ٹائیگر فرنچائز اور اسپائی یونیورس کا حوالہ میسر تھا۔ اس پر مستزاد شاہ رخ خان اور ریتک روشن کے کیمیو۔ ان عوامل کے باعث فلم کو پہلے دن شاندار رسپانس ملا اور یہ بھارت میں 43 کروڑ نیٹ، جب کہ دنیا بھر میں مجموعی طور پر 92 کروڑ کا بزنس کرنے میں کامیاب رہی۔ توقع کے عین مطابق دوسرے دن بزنس میں اضافہ ہوا اور فلم نے 58 کروڑ نیٹ کا ہندسہ اپنے نام کر لیا۔ اب تک کے نمبرز اچھے ضرور ہیں، مگر یہ توقع سے کچھ کم بھی ہیں۔ فلم کا اصل امتحان تو آج اور کل ہوگا، تب تک واضح ہوجائے گا کہ پڑوسیوں کی جمہوریت کو بچانے کے لیے اپنی جگہ خطرے میں ڈالنے والے ٹائیگر کے نصیب میں کیا لکھا ہے۔
حرف آخر
بالی وڈ میں پروان چڑھتا پاکستان دشمنی کا حالیہ رجحان بی جے پی اور نریندر مودی کی منفی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس نے سماج کے دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ سیکولر ازم کے علم بردار تصور کیے جانے والے فن کاروں کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی رجحان کا نتیجہ آج مضحکہ خیز فلموں کی صورت سامنے آرہا ہے۔ افسوس، یش راج جیسا بینر بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ افسوس ناک سلسلہ کتنا دراز ہوتا ہے۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔