دنیا

امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان میزائل وارننگ ڈیٹا شیئرنگ پر متفق

رئیل ٹائم میزائل وارننگ ڈیٹا شیئر میکانزم کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں، اس میکانزم کو دسمبر میں باضابطہ طور پر فعال کرنے پر اتفاق کیا گیا، محکمہ دفاع سیئول

امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاعی سربراہان شمالی کوریا کی جانب سے اگلے ماہ میزائل تجربات کے پیش نظر رئیل ٹائم ڈیٹا شیئرنگ فعال کرنے پر متفق ہوگئے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سیئول میں سیکیورٹی کے حوالے سے بات چیت کے لیے موجود امریکا کے سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے جنوبی کوریا کے ہم منصب شن وون سک سے ملاقات کی، جبکہ جاپانی وزیر دفاع منورو کہارا نے آن لائن شرکت کی۔

محکمہ دفاع سیئول نے بیان میں بتایا کہ تینوں وزرا نے جائزہ لیا کہ رئیل ٹائم میزائل وارننگ ڈیٹا شیئر میکانزم کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں ہیں اور اس میکانزم کو دسمبر میں باضابطہ طور پر فعال کرنے پر اتفاق کیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اعلیٰ حکام نے 2023 کے آخر تک باقاعدہ سہ ملکی مشقوں کے لیے ایک کثیر سالہ منصوبہ تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا، جو جنوری سے شروع ہونے والی تربیتی مشقوں کو ’منظم اور مؤثر‘ بنائے گا۔

امریکی محکمہ دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ ملاقات کے دوران تینوں دفاعی رہنماؤں نے ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا (شمالی کوریا) سے بڑھتے ہوئے جوہری اور میزائل خطرات سمیت علاقائی سلامتی کے مسائل کا جائزہ لیا۔

وزرا اگست میں کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر جو بائیڈن کی میزبانی میں سہ فریقی سربراہی اجلاس میں اپنے رہنماؤں کے مابین طے ہونے والے معاہدوں کا جائزہ لے رہے تھے۔

سیئول اور واشنگٹن نے اس سال پیانگ یانگ کی جانب سے ہتھیاروں کے ریکارڈ تجربات کے پیش نظر دفاعی تعاون میں اضافہ کیا ہے۔

جنوبی کوریا میں صدر یون سک کی قدامت پسند حکومت نے جاپان کے ساتھ تاریخی طور پر خراب تعلقات کو استوار کرنے کے لیے کوشش کی۔

کیمپ ڈیوڈ کا اجلاس وہ پہلا موقع تھا جب تینوں رہنماؤں نے کسی بڑی تقریب کی سائیڈلائنز کے بجائے علیحدہ سے ایک اجلاس میں ملاقات کی۔

سیئول کی وزارت دفاع کے بیان کے مطابق دفاعی سربراہان نے شمالی کوریا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

ماسکو کے یوکرین پر حملے اور پیانگ یانگ جوہری ہتھیار اور میزائل پروگرامز کی وجہ سے اتحادی روس اور شمالی کوریا دونوں بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہیں۔

ستمبر میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ سربراہی ملاقات کے بعد ان دونوں ممالک کا بڑھتا ہوا فوجی تعاون یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

اتوار کی ملاقات امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کے دورہ سیئول کے چند روز بعد ہوئی، جس میں انہوں نے پیانگ یانگ اور ماسکو کے درمیان فوجی تعلقات ’بڑھنے اور خطرناک‘ ہونے پر تنبیہ دی تھی۔

شوہر امیر آدمی نہیں، عام سی نوکری کرتے ہیں، غنا علی

صدر مملکت صرف ایک نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کریں، مرتضیٰ سولنگی

مودی حکومت ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے سے کیوں انکار کررہی ہے؟