بنگلہ دیش: پرتشدد مظاہروں کے دوران 150 فیکٹریاں بند
بنگلہ دیش کی گارمنٹس مینوفیکچررز نے ہفتے کو 150 فیکٹریوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا جب کہ پولیس نے کم از کم اجرت بڑھانے کے مطالبے کے حق میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے سلسلے میں 11 ہزار ورکرز کے خلاف بلینکٹ چارجز عائد کردیے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق تنخواہ میں اضافے کے مطالبے کے حق میں پرتشدد مظاہرے گزشتہ مہینے شروع ہوئے، ان مظاہروں کے دوران کم از کم 3 مزدور ہلاک ہوئے اور 70 سے زائد فیکٹریوں میں توڑ پھوڑ کی گئی یا انہیں نقصان پہنچایا گیا، چند روز قبل 15 ہزار ورکرز کی پولیس کے ساتھ جھڑپ میں ایک اعلیٰ پلانٹ توسوکا سمیت ایک درجن دیگر فیکٹریوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
پولیس افسر مشرف حسین نے کہا کہ پولیس نے توسوکا گارمنٹس فیکٹری پر حملے کے سلسلے میں 11 ہزار نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔
بنگلہ دیش کی 3 ہزار 500 گارمنٹس فیکٹریاں اس کی سالانہ برآمدات 55 ارب ڈالر کا تقریباً 85 فیصد فراہم کرتی ہیں، یہ فیکڑیاں لیوائز، زارا، ایچ اینڈ ایم سمیت دنیا کے کئی اعلیٰ برانڈز کو مصنوعات سپلائی کرتی ہیں لیکن اس شعبے کے 40 لاکھ مزدور کسمپرسی کے حالات کا شکار ہیں جن میں سے زیادہ تر ملازمین خواتین ہیں جب کہ زیادہ تر ورکرز کی ماہانہ تنخواہ 8 ہزار 300 ٹکا (75 ڈالر) ہے۔
7 نومبر کو حکومت کے مقرر کردہ پینل نے سیکٹر کی اجرت میں 56.25 فیصد اضافہ کرکے 12 ہزار 500 ٹکا کردی تھی، گارمنٹس ورکرز نے اس اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کم از کم اجرت 23 ہزار ٹکا مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔
پولیس نے کہا کہ دارالحکومت ڈھاکا کے شمال میں واقع بڑے صنعتی شہروں اشولیہ اور غازی پور میں 150 فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں کیونکہ ہفتے کو بنگلہ دیش میں ورکنگ ویک شروع ہونے پر صنعت کاروں کو مزید ہڑتالوں کا خدشہ تھا۔
اشولیہ شہر میں بنگلہ دیش کی کچھ سب سے بڑی فیکٹریاں قائم ہیں جن میں سے کچھ میں 15 ہزار کے قریب ورکرز کام کرتے ہیں۔
جمعرات کو پولیس نے اشولیہ میں تقریباً 10 ہزار کارکنوں پر ربر کی گولیاں اور آنسو گیس فائر کیے جب کہ انہوں نے اینٹوں اور پتھروں سے افسران اور فیکٹریوں پر حملہ کیا۔
پولیس افسر محمد سرور عالم نے بتایا کہ غازی پور میں بھی کم از کم 20 فیکٹریاں بند کر دی گئیں جب کہ یہ شہر ملک کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن نے احتجاجی ورکرز کے خلاف تشدد کی مذمت کی ہے، بنگلہ دیش میں تیار کردہ ملبوسات کے سب سے بڑے خریداروں میں سے ایک امریکا نے مناسب اجرت دینے کا مطالبہ کیا ہے جو مزدوروں اور ان کے خاندانوں کو درپیش بڑھتے معاشی دباؤ سے محفوظ رکھے۔