میانمار: جھڑپوں کے سبب 50 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شمالی میانمار میں مسلح گروہوں کے اتحاد کی طرف سے 2 ہفتے قبل فوج کے خلاف حملے شروع کرنے کے بعد سے تقریباً 50 ہزار افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق چینی سرحد کے قریب واقع شمالی شان کے پورے علاقے میں جھڑپیں جاری ہیں، مبصرین جنتا کے 2021 سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، تانگ نیشنل لیبریشن آرمی اور اراکان آرمی نے چین کے لیے اہم تجارتی راستوں کو بند کر دیا اور بتایا کہ انہوں نے درجنوں فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) کے مطابق 9 مئی سے اب تک شمالی شان کے علاقے سے تقریبا 50ہزار افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ایک رہائشی نے کہا کہ چین کے اہم تجارتی راستے میوز اور چنشواہو پر قائم ہنسوی قصبے میں جمعہ کو بھی جھڑپیں جاری رہیں۔
دوسری جانب ریاست شان کے علاقے کے رہائشی کا کہنا تھا کہ قصبے میں لڑائی نہیں ہوئی، لیکن ہوائی اڈہ بند رہا، انہوں نے کہا کہ قصبے کے رہائشی اپنی معمولات زندگی میں مصروف ہیں، البتہ ہم نے رات کے وقت قصبے کے باہر سے کچھ فائرنگ کی آوازیں سنی۔
اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کے مطابق لاشیو کے باہر انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع معطل ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے انسانی امداد میں مشکل ہوئی، ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ اور نقد رقم کے حوالے سے پابندیوں نے بھی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کو متاثر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ نومبر کے اوائل سے ہمسایہ ساگانگ علاقے اور کاچین ریاست میں ملٹری اور اس کے مخالف گروہوں کے درمیان جاری جنگ سے مزید 40 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
فوج نے اس حیرت انگیز حملے کے بارے میں بہت کم تبصرہ کیا لیکن جنتا کے مقرر کردہ صدر نے اس ہفتے تنبیہ دی ہے کہ اگر فوج حملے کو ’سنبھالنے‘ میں ناکام رہی تو میانمار ’کئی حصوں میں تقسیم‘ ہوسکتا ہے۔