’جیل سے بھی بدتر‘، پاکستان میں دستاویزات کے بغیر مقیم افغان باشندے روپوش
انسانی حقوق کے کارکنان نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے دستاویزات کے بغیر مقیم افراد کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بعد برسوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہزاروں افغان باشندے روپوش ہوگئے ہیں کیونکہ وہ اپنے آبائی ملک میں طالبان انتظامیہ کے تحت ظلم و ستم کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
غیرملکی خبرایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق نامعلوم مقام سے 23 سالہ افغان خاتون نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا دروازہ باہر سے بند ہے، ہم اندر قید ہیں، ہم لائٹس نہیں جلا سکتے یہاں تک کہ ہم زور سے بات تک نہیں کر سکتے‘۔
روپوش دیگر لوگوں کا کہنا تھا کہ مقامی حامیوں نے پڑوسیوں کو گھر کے خالی ہونے کا یقین دلانے کے لیے دروازے پر تالا لگا دیا ہے۔
کابل سے تعلق رکھنے والی خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں خوف ہے کہ اگر وہ افغانستان واپس لوٹ گئیں تو ان پر طالبان انتظامیہ کی جانب سے مقدمہ چلایا جائے گا کیونکہ 2019 میں انہوں نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور اسلامی عقیدے کو ترک کرنا طالبان کے سخت قانون کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا ماننا ہے کہ یہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جو پاکستان میں روپوش ہوگئے ہیں تاکہ وہ حکومت کی جانب سے غیر دستاویزی مہاجروں کو ملک چھوڑنے کے دباؤ کے تحت بے دخلی سے بچ جائیں۔
انتظامیہ نے یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن گزر جانے کے بعد ملک گیر کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
کراچی میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن 30 سالہ سجل شفیق حکومت کی اس پالیسی سے قبل کئیکمزور افغان شہریوں کو رہائش کی تلاش میں مدد کی ہے، وہ سپریم کورٹ سے ملک بدری کے حکومتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کرنے والے دیگر درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں۔
سجل شفیق کا کہنا تھا کہ ’میں ان ہزاروں لڑکیوں کو جانتی ہوں جو کہتی ہیں کہ وہ طالبان کی حکومت کے ماتحت رہنے کے بجائے مرنا پسند کریں گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سب کے کچھ خواب اور عزائم ہیں جو افغانستان میں پورے ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں عورتوں کو زیادہ تر کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور وہ مرد محافظ کے ساتھ ہی سفر کر سکتی ہیں۔
طالبان انتظامیہ کے ترجمان کی جانب سے اب تک اس پر کوئی بیان جاری نہیں ہوا کہ واپس لوٹنے والوں کی اسکریننگ کی جائے گی یا ان کے قوانین کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پاکستان کی وزارت داخلہ اور خارجہ کی جانب سے بھی خطرے سے دوچار افراد کو ملک بدری کے عمل سے چھوٹ دینے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
حکومت نے اب تک اقوام متحدہ، مغربی سفارت کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے ملک بدری کے منصوبے پر نظر ثانی یا ان افغانوں کی شناخت اور حفاظت کرنے جنہیں گھر پر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کے مطالبے کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔
امریکا سمیت دیگر مغربی سفارت کاروں نے انتظامیہ کو ان لوگوں کی فہرست بھی فراہم کردی ہے جن کی ممکنہ طور پر بیرون ملک منتقلی کے لیے کارروائی کی جارہی ہے اور کہا ہے کہ ان کو ملک سے بے دخل نہ کیا جائے مگر ان لوگوں کی تعداد خطرے سے دو چارافراد کے مقابلے میں کم ہے۔
جیل سے بھی بدتر
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ملک گیر کارروائی سے بچنے کے لیے روپوش ہونے والے کئی غیر دستاویزی تارکین وطن سے بات کی تاہم انہوں نے موجودہ حالات کے پیش نظر شناخت ظاہر کرنے یا نام استعمال کرنے سے منع کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق ان افراد میں 35 سالہ عیسائی مذہب قبول کرنے والا باپ بھی شامل ہے، جو اپنی 9 سالہ بیٹی کے ساتھ فرار ہو کر پاکستان آگیا تھا۔
پناہ گاہ میں موجود ایک جوان لڑکی کا کہنا تھا کہ ان کو اپنی زندگی کے حوالے سے خطرہ لاحق ہے کیونکہ اس کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے جن کو کئی برسوں تک افغانستان میں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
رات کے وقت لائٹس کی بندش یقینی بنانے والے 22 سالہ افغان لڑکے کا کہنا تھا کہ’یہ جیل سے بھی بد تر ہے’۔
چند مقامی جو افغان شہریوں کی مدد کر رہے ہیں، کھانے اور پانی کا بندوبست کرتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر ضروری سامان پناہ گاہ میں پہنچا دیتے ہیں۔
افغان گلوکار 28 سالہ وفا پاکستان میں اپنے پناہ کے دن ختم ہونے سے خوفزدہ ہیں، جہاں وہ دو سال پہلے طالبان کے قبضے کے بعد منتقل ہوگئی تھیں کیونکہ ان کا ویزا ختم ہوگیا ہے۔
اسلام آباد میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں امید کرتی ہوں کہ مجھے فرانس یا کینیڈا میں پناہ مل جائے یا وہ پاکستان کو ہی اپنا گھر بنالیں کیونکہ انہوں نے 11 سال پہلے پشتو گلوکاری شروع کی تھی اور وہ اب افغانستان میں قابل قبول نہیں اور طالبان نے عوام میں موسیقی کی پرفارمنس پر پابندی عائد کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق انہیں تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے اور ان کے ویزے کی مدت بڑھانے کے لیے ان کے گھر والوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، اسی دوران وہ گھر سے نکلنے سے پرہیز کر رہی ہیں تاکہ وہ پاکستان پولیس کی اسنیپ چیکنگ سے بچ سکیں۔
وفا کا کہنا تھا کہ ’میں ایک گلوکارہ ہوں، مجھے پتا ہے واپس جانے پر میرے ساتھ کیا ہوگا۔‘
کراچی کے 32 سالہ گلوکار صالح زادہ نے بتایا کہ وہ ایک سال قبل افغانستان سے یہاں منتقل ہوئے تھے۔
صالح زادہ اپنے رشتہ داروں کے ایک اپارٹمنٹ میں موجود ہیں جہاں انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں گاؤں میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے گانا گاتا تھا، ہم بہت پارٹی اور گلوکاری کی محفلیں کرتے ہیں۔
انہوں نے رائٹرز کو اپنے ہارمونیم اور رباب بجاتے ہوئے ویڈیو کلپس دکھائیں، جن میں سے متعدد سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خاندان نے مجھے افغانستان چھوڑنے کا مشورہ دیا، میں طالبان سے ڈرتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی پولیس کے ہاتھوں درست ویزا نہ ہونے کی وجہ سے پکڑے جانے کے خوف نے انہیں کئی دنوں تک گھر کے اندر محصور کر دیا ہے۔
صالح زادہ نے کہا کہ پاکستان میں زندگی مشکل ہے مگر مجھے اپنی جان بچانی ہے۔