’اس مرتبہ ایم کیو ایم نے اتحاد کا فیصلہ قبل از وقت کرلیا ہے‘
ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات منعقد کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی ہلچل میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ کہیں حلیف نئے عہد و پیمان کیے جارہے ہیں تو کہیں نئے سیاسی دوستوں سے تعلقات استوار کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ انتخابات کے لیے سیاسی بساط پر کئی حلیف اب حریف بنتے دکھائی دے رہیں تو کچھ نئے سیاسی دوست بن رہے ہیں۔
اسی سلسلے کی پہلی کڑی مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کی نئی رفاقت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کی اور اپنے انتخابی اتحاد کا اعلان کیا جسے 2024ء کے عام انتخابات کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کا سیاسی یارانہ کوئی نئی بات نہیں ہے ماضی میں بھی مختلف ادوار میں یہ دونوں جماعتیں ایک ساتھ رہی ہیں۔ 16 ماہ کے مختصر حکومتی دور سمیت جب بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایم کیو ایم کا اتحاد ہوا تب پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اس اتحاد کا حصہ بنی۔ اسی طرح جب پیپلز پارٹی اقتدار میں رہی تو ایم کیو ایم اس کی اتحادی بنی رہی۔ البتہ 2002ء کے انتخابات میں منظرنامہ مختلف تھا کیونکہ اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں تھیں اور ایم کیو ایم مسلم لیگ (ق) کیساتھ حکومتی بینچوں پر موجود تھی۔
اب مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے سیاسی طور پر قریب آنے پر پیپلز پارٹی کا فوری ردِعمل ایک فطری بات تھی اور سابق صدر آصف علی زرداری نے انتخابات میں اپنے مخالفین کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ وہ آئیں، ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ ان کی اپنی سیاست ہے اور ہماری سیاست کا اپنا فلسفہ ہے۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کا مل کر فروری 2024ء کے انتخابات لڑنا مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم دونوں میں سے زیادہ کس کے حق میں ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ سیاسی دوستی، حکومت کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوگی۔ ایم کیو ایم کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ اسی جماعت کے ساتھ نظر آتی ہے جو حکومت میں ہو لیکن اس مرتبہ ایم کیو ایم نے اتحاد کا فیصلہ قبل از وقت کرلیا ہے۔
دیکھا جائے تو کراچی میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اتنا نہیں ہے جو ایم کیو ایم کے لیے مددگار ہو جبکہ یہ بھی ایک سوال ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کن حلقوں میں ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی؟ اس کے علاوہ اس اتحاد سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ کامیابی کی صورت میں اب حکومت سازی کٹھن مرحلہ نہیں ہوگی۔
مسلم لیگ (ن) کی ایم کیو ایم کے ساتھ قربت رہی ہے لیکن ایم کیو ایم پر مشکل وقت بھی مسلم لیگ (ن) کے دور میں ہی آیا۔ ایم کیو ایم کے خلاف جون 1992ء میں آپریشن بھی مسلم لیگ (ن) کے دورِ اقتدار میں شروع ہوا۔ سابق گورنر سندھ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998ء میں قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان تلخی اور دوریاں پیدا ہوگئیں۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت سے الگ ہوئی اور یوں وزیراعلیٰ لیاقت جتوئی اکثریت کھو بیٹھے اور اس کے بعد سندھ میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ اسی طرح 2016ء میں بانی ایم کیو ایم کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد کارروائی بھی نواز دور حکومت میں ہی شروع ہوئی تھی۔
اس سب کے بعد گزشتہ برس جب اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف تحریکِ اعتماد لائی تو ایم کیو ایم پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ کر 11 جماعتی اتحادی حکومت میں شامل ہوگئی اور 16 ماہ اس حکومت کا حصہ رہی۔ اس سے ایک بات تو ظاہر ہوگئی کہ ایم کیو ایم اپوزیشن کے بجائے حکومت میں بیٹھنے کو ترجیج دیتی ہے اور اب ان کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
دوسری طرف استحکام پاکستان پارٹی بھی اپنے جلسے کرنے میں مصروف ہے جنہیں انتخابی مہم کا حصہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ استحکام پاکستان پارٹی نے اپنا پہلا جلسہ نواز شریف کی واپسی پر ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے جلسے کے عین ایک ہفتے بعد کیا۔ البتہ یہ جلسہ کسی بڑے شہر کی بجائے جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال میں کیا گیا اور یہ مقام چُننے کی خاص وجہ ہے۔ استحکام پارٹی کسی بڑے شہر میں جلسہ کرنے کے بجائے اُن اضلاع پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جہاں اُن کی جماعت میں شامل ہونے والے سیاست دانوں کا اچھا خاصا اثر ورسوخ ہے اور اسی وجہ سے ابھی بڑے شہروں کا رخ نہیں کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی کے بعد پیپلز پارٹی اپنا زور سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرف لگائے گی۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی زیرِعتاب جماعت تحریک انصاف کے لیے ہمدردی ظاہر کررہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس نے اب سابق حکمران جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھنا شروع کردیا ہے۔ بظاہر اس کی وجہ یہی لگتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر استحکام پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔
اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ تحریک انصاف شدید مشکلات میں ہونے کے باوجود ایک حقیقت ہے اور اس کے ووٹ بینک کا اثر کیسے توڑا جائے گا یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی نے 1977ء کے انتخابات کے ٹھیک 11 برس بعد 1988ء میں انتخابات لڑے تو وہ اقتدار میں آگئی جس کی وجہ اس کا ووٹ بینک ہی تھا جو گیارہ برس کے بعد بھی قائم تھا۔
یہ بات بھی تواتر کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں کسی بھی جماعت کا سادہ اکثریت حاصل کرنا آسان نہیں ہے اور اس طرح ایک معلق قومی اسمبلی کی تشکیل کی پیش گوئی بھی کی جارہی ہے۔
2002ء میں بھی ایک ایسی قومی اسمبلی وجود میں آئی تھی جس کی حکومت کو مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت پڑ گئی تھی بلکہ عددی تعداد مکمل کرنے کے لیے راتوں رات ’پیپلز پارٹی پیٹریاٹ‘ بنی۔ یہ وہی قومی اسمبلی تھی جس میں ایک نہیں بلکہ تین اپوزیشن تھیں۔ پہلی متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے)، دوسری پیپلز پارٹی اور تیسری مسلم لیگ (ن) تھی۔ متحدہ مجلس عمل، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) انفرادی کامیابی حاصل کرکے قومی اسمبلی میں پہنچی تھیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی نامزدگی کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین کو درخواست بھی دی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سیاسی اتحاد اے آر ڈی میں ساتھ ہیں اور عددی اعتبار سے ان کی تعداد متحدہ مجلس عمل سے زیادہ ہے اس لیے ان کا متفقہ اپوزیشن لیڈر ہونا چاہیے۔
لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے ایم ایم اے کے اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمٰن کو نامزد کیا اور اس کا یہ جواز پیش کیا کہ ایم ایم اے ایک انتخابی اتحاد ہے اور ایک ہی انتخابی نشان پر منتخب ہوئی ہے اس لیے اپوزیشن لیڈر اُن کا ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے کسی انتخابی اتحاد کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا بلکہ ان کا انتخابی نشان بھی الگ الگ تھا اور عددی طور پر ان دونوں جماعتوں کے منتخب ارکان (الگ الگ) کی تعداد ایم ایم اے سے کم ہے۔
اس مرتبہ بھی امکان ہے کہ اسی نوعیت کی اسمبلی وجود میں آئے گی جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت تو ہوگی لیکن اپوزیشن میں ایک یا دو سے زائد جماعتیں ہوں گی۔
عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔